1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. محمد محسن شیخ/
  4. لڑا دے کسی بلاسے مجھے

لڑا دے کسی بلاسے مجھے

خطرات میں پھنسا، دن رات حکومت گرنےکی آوازیں سننےوالا، بلیک میلر اتحادیوں میں گھرا، مہنگائی بے روزگاری کمزور معیشت کاسامناکرنےوالا، اٹھارویں ترمیم کی صوبائی دھمکیوں کا برے وقت میں اپنی قوم کا حوصلہ بڑھانے والا، اپنے احتساب کے نعرے پر قائم رہنے والا بدمعاشیہ کا سسٹم ہونے پر احتساب کے عمل روک جانے پر روز زہر کے گھونٹ پینے والا ابتر معاشی صورتحال پر خزانہ خالی ہونے کے باوجود مہنگائی پر عوام کو بڑا ریلیف دینے والا لیڈر، یہ الفاظ بار بار کہہ رہا ہے تو تمام تمام سیاسی گِدھ اسےاپنی موت کا پروانہ سمجھیں۔

عمران خان روایتی سیاستدان نہیں ہے جو اقتدار پر بیٹھ کر روایتی مورثی سیاستدانوں کی طرح دھن دولت جائیداد محلات بنائے خود کھائے اور اپنے ساتھ والوں کو بھی نوازے اپنے بنیادی اصولوں پر سمجھوتا کریں۔ یہ مافیا بدمعاشیہ اتحادی اور حکومت میں شامل لوگ جتنا مرضی عمران خان کو پریشررائز کرلے عمران خان کسی بھی صورت اپنے بنیادی اصولوں پرکوئی کمپرومائز نہیں کریں گے، اور عمران خان کو اصولوں پر سمجھوتہ کرنا بھی نہیں چاہیئے۔

ملک میں سب سے بڑا ایشو مہنگائی ہے اور عوام اس بڑھتی مہنگائی سے پریشان ہیں۔ اب وزیراعظم نے مہنگائی کے ستائے عوام کو ریلیف دینے کے لیے ایک بڑا پیکیچ جاری کردیا ملکی معیشت بھی سب کے سامنے ہے۔ خزانہ خالی ہے ملکی لوٹی ہوئی دولت باہر کے بینکوں میں پڑی ہیں لیکن اسکے باوجود انہوں نے پٹرول گیس بجلی کی قیمتوں میں مزید کمی کرنے کے احکامات جاری کردیے۔ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اس مہنگائی کی ذمہ دار حکومت کی معاشی ٹیم اور سسٹم میں بیٹھی بدمعاشیہ اور مافیا ہیں اس معاشی ٹیم نے وزیراعظم کو معشیت کے حوالے سے اعداد و شمار بھی غلط بتائے جس پر خان صاحب نے خود کہا کہ معاشی ٹیم نے مجھے غلط رپورٹ دی ہیں۔

جب تک حفیظ شیخ وزیر خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر رہے گے تب تک عمران خان جو مرضی مہنگائی کنٹرول کرنے کے اقدامات کرتے رہے مہنگائی جوں کی توں برقرار رہے گی۔ حفیظ شیخ اور رضا باقر کو ملک میں لانے والے جہانگیر ترین ہے اور یہ آئی ایم ایف کی طرف سے بھی آئے ہیں اور عمران خان ان دونوں شخصیات سے بری طرح بیزار ہے۔ اور یہ کسی بھی وقت اپنے بیگ اٹھائے گے اور واپس چلے جائے گے۔ جیسے اٹارنی جنرل انور منصور عدلیہ سے غیر مشروط معافی مانگ کر مستعفی ہوکر چلے گے۔

معاشی ٹیم کے بعد قانونی ٹیم نے بھی حکومت کو نا کردہ بحرانوں میں دھکیل دیا اور حکومت عدلیہ کو آمنے سامنے کردیا جسٹس فائز عیسی کے خلاف ریفرنس وزیر قانون فروغ نسیم نے خدا جانے کس کے کہنے پر جاری کیا وزیراعظم کو اس ریفرنس کا بعد میں علم ہوا جب معاملہ عدلیہ میں چلا گیا یہ وہ قانونی ٹیم ہیں جو متعدد بار وزیراعظم کو عدلیہ سے لڑوا چکی ہیں۔ مانا کہ فروغ نسیم ایک قابل ماہر قانون دان اور بیرسٹر ہے۔ اور فروغ نسیم پی ٹی آئی کے نہیں ہے اور ادھر ایم کیو ایم بولتی ہیں کہ فروغ نسیم ہماری جماعت سے نہیں ہے اچھا تو پھر کس جماعت سے ہیں۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر آج تک ملکی لوٹی ہوئی دولت واپس نہیں لاسکے پاکستان کا اربوں کھربوں روپیہ باہر پڑا ہیں اور یہاں ملکی خزانہ خالی پڑا ہے اور مزید ستم احتساب کا عمل بھی روک گیا۔ بار کونسل نے بھی وزیر قانون کو فوری مستعفی کرنے کا مطالبہ کردیا اس سے پہلے کہ یہ قانونی ٹیم عمران خان کے لیے مزید بحران پیدا کریں خان صاحب کو چاہیئے وہ فوری طور پر فروخ نسیم اور شہزاد اکبر کو فارغ کریں۔ ‏جسٹس فائز عیسٰی کا وزیراعظم پر الزام عائد کرنا کہ انکی آفشور کمپنیاں ہیں غیر منطقی بات ہے۔ یاد رہے کہ وزیراعظم کی آفشور کمپنیاں اور ان کی بیرون ملک جائداد کو سپریم کورٹ نے خود اچھی طرح گھنگال کر انہیں کلین چٹ دی تھی پھر عمران خان وزیراعظم بنے تھے۔ ججز کوئی مقدس گائے نہیں احتساب سب کا ہونا چاہیئے اور بلا امتیاز احتساب ہونا چاہیئے۔

سابق اٹارنی جنرل انور منصور کے استعفیٰ کے بعد وزیراعظم نے نئے اٹارنی جنرل خالد جاوید کو تعینات کردیا اور نئے اٹارنی جنرل خالد جاوید نے جسٹس فائز عیسی کیس میں حکومت کی نمائندگی کرنے سے معذرت کرلی انہوں نے کہا کہ میں حکومت کی نمائندگی نہیں وفاق کی نمائندگی کروگا کیونکہ خالد جاوید شروع ہی سے جسٹس فائز کے ریفرنس کے فیور میں نہیں تھے۔ عدلیہ نے حکومت کو پرائیوٹ وکیل کرنے کو کہا اور ساتھ تیس مارچ تک کا ٹائم بھی دے دیا وزیر قانون فروخ نسیم نے خود پرائیوٹ وکیل بننے کی پیشکش کی جس کو عدلیہ نے قبول کرتے ہوئے کہا کہ ٹھیک ہے آپ اپنی وزارت سے استعفیٰ دے کر وکیل بن سکتے ہیں اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ میں استعفیٰ نہیں دوگا عجب منطق ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کی نمائندگی کون کرے گا اس سے اچھا آپ اٹارنی جنرل بننے سے ہی معذرت کرلیتے۔ اس معاشی ٹیم نے عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈالا اور اس قانونی ٹیم نے عمران خان کو ان نا کردہ بحرانوں میں دھکیلا اب وزیراعظم فوری طور پر اچھے لوگوں کو تعینات کریں اور فارغ کریں ان سب کو جو آپ کو گھیر کر بیٹھے ہیں آپکے لیے مسائل بحران پیدا کررہے ہیں۔ اور بدمعاشیہ کے ساتھ مل کر آپکے خلاف سازشیں بھی کررہے ہیں۔ وزیراعظم اپنی ایک چھوٹی سی اچھے لوگوں پر کابینہ بنائے جو فوری طور پر درست مثبت فیصلے کریں۔

اقتدار سے قبل عمران خان کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ آگے چل کر یہ منظرنامہ تبدیل ہوجائے گا اگر عمران خان کو پہلے یہ سب پتہ ہوتا کہ احتساب کا عمل رک جائے گا نواز شریف شہباز شریف لندن چلے جائیں گے زرداری مریم کا جیل میں رہنا یہ رہا ہونا عمران خان کے ہاتھ میں نہیں ہوگا سندھ حکومت کو کچھ بھی کہنا انکے ہاتھ میں نہیں ہوگا بلکہ الٹا سندھ حکومت کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا تو عمران خان ان شرائط پر کبھی اقتدار نہیں لیتے یہ پھر احتساب کی بات نہیں کرتے۔

مشرف نے بھی اس بدمعاشیہ کا احتساب کرنا چاہا مگر پھر این آر او دینا پڑا۔ جب تک پاکستان کا عدالتی نظام ٹھیک نہیں ہوگا جب تک جزا اور سزا کا نظام نہیں بنے گا تب تک کوئی اس بدمعاشیہ کا احتساب نہیں کرسکتا۔ امریکی صدر ٹرمپ کا دورے بھارت میں اپنے پہلے ہی خطاب میں پاکستان کی تعریف کرنا وہاں کے آر ایس ایس کے غنڈوں کو ہضم نہیں ہوا اور ان غنڈوں نے مسلمانوں کی جان و املاک پر تابڑ توڑ حملے شروع کردیے۔ ‏ایک وقت تھا جب ایک وزیراعظم اسی بھارت میں کھڑا ہوکر اپنے پاکستان کو دہشتگرد کہہ رہا تھا۔ آج اسی دشمن ملک میں دوسرے بڑے ملک کا صدر دشمنوں کے بیچ کھڑا ہوکر پاکستان کی تعریف کررہا ہے۔ اس تعریف کی اتنی تکلیف ہندوستان کے لوگوں کو نہیں ہوئی ہوگی جتنی پاکستان میں پڑے کرپٹ بھارت نواز لوگوں کو ہورہی ہیں۔