1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. محمد محسن شیخ/
  4. پرویز مشرف کی سزا

پرویز مشرف کی سزا

اپنی ریٹائرڈمنٹ کے دو ہفتے قبل ہی جسٹس کھوسہ نے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی تین سالا مدت توسيع کو چیلنج کرکے چھ ماہ کی توسيع کردی اور حکومت کو آرمی چیف کی توسيع کے معاملے پر قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ کا پابند کیا۔ اسکے دوسرے دن ملک کی چالیس سال خدمت کرنے ملک کے دفاع کے لیے چار جنگیں لڑنے والے فور اسٹار سابق جنرل صدر مشرف کو آئین شکنی کیس میں سنگین غدار قرار دے کر سزائے موت کا فیصلہ سنایا گیا اور دونوں آرمی چیف کے فیصلے سابق جسٹس کھوسہ کی سربراہی میں تشکیل دیے گے عدالتی بنچوں نے دیے۔

ظاہر ہے سپریم کورٹ میں جتنے بھی بنچ کام کرتے ہیں یہ تمام ججز ایک چیف جسٹس کے حکم کے ماتحت ہی کام کرتے ہیں اور اپنے اپنے فیصلے سناتے ہیں۔ جسٹس کھوسہ نے جاتے جاتے جنرل قمر باجوہ کی توسيع کو چیلنج کیا اپوزیشن نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا۔

آپکو یاد ہوگا کہ سابق صدر زرداری کی صدارت میں یوسف رضا گیلانی نے بھی سابق آرمی چیف جنرل کیانی کی مدت میں توسيع کی تھی اسکے بعد صدر زرداری نے جنرل کیانی کی توسيع پر دستخط کیے تھے اس فیصلے کو تو اس وقت کی عدلیہ نے چیلنچ نہیں کیا تھا اور نہ ہی کسی سیاسی مذہبی جماعتوں میں سے کسی نے کوئی اعتراضات کیے تھے تو اب کیوں اعتراضات کیے گے۔

اور اب اسی اپوزیشن نے آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی حمایت کردی آرمی ایکٹ ترمیمی بل پارلیمنٹ سے کثرت رائے سے منظور ہونے کے بعد سینٹ سے بھی منظور ہوگیا۔ اور نئی قانون سازی کے لیے اپوزیشن حکومت کے ساتھ تعاون پر ٹال مٹول کررہی ہے۔

نئی قانون سازی تو گی بھاڑ میں اب حکومتی اتحادی ہی اپنے مطالبات پورے نہ ہونے پر حکومت سے الگ ہورہے ہیں۔ ایم کیو ایم کے بعد دیگر اتحادی بھی اپنے مطالبات پورے نہ ہونے پر حکومتی اتحاد سے علیحدگی پر تلے بیٹھے ہیں ایک وقت میں تمام اتحادی جماعتوں کا ناراض ہونا اور ایک ہی وقت میں یہ سب کچھ ہونا دال میں کچھ کالا ہے یا پوری دال ہی کالی ہے۔ اس پر مزید تبصره بعد میں کریں گے تفصیل کے ساتھ۔

وزیراعظم نے جنرل قمر باجوہ کی توسيع اپنے ذاتی مفاد کے لیے نہیں بلکہ کشمیر اور سرحدوں کی بگڑتی صورتحال کے پیش نظر کیں تھی۔ ویسے تو ہماری مسلح افواج کے سربراه ایک سے بڑھ کر ایک نکلتے ہیں۔ جنرل قمر باجوہ کو نیو کلیئر اور سرحدوں کے دفاع کا بھرپور وسیع تجربہ ہے۔ ان حالات میں ملک کو ایک ایسے ہی سخت جان سپہ سالار کی ضرورت ہے۔

کیا اب آرمی ایکٹ ترمیم بل منظوری سے جنرل باجوہ کی توسيع کا معمہ حل ہوگیا بظاہر تو حل ہوگیا لیکن خدشہ ہے کہ کہیں یہ آرمی ایکٹ صدر کے دستخط کے بعد عدلیہ میں دوباره چیلنچ نہ ہوجائے کیونکہ حکومت نے ایکٹ میں ترمیم کی ہے آئین میں نہیں کی اسکے لیے حکومت کو سب سے پہلے آئین میں ترمیم کرنا چاہیئے تھی۔ آئین میں ترمیم سازی کے لیے بھاری اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے۔

بہتر یہی ہوتا کہ آرمی ایکٹ ترمیم کے لیے حکومت اور اپوزیشن اس معاملے کو حل کرنے کے لیے ایک ساتھ اتفاق رائے سے بیٹھے تھے تو آرمی چیف کی توسيع کے لیے آئین میں ترمیم کرلیتے تو یہ معاملہ مستقل بنیادوں پر حل ہوجاتا۔ بہرحال دیکھتے ہیں کہ یہ معاملہ آگے چلتا ہے یا حل ہوجاتا ہے۔

‏وہ شخص جس نے سیکنڈ لیفٹیننٹ سے لیکر آرمی چیف تک چالیس سال تک ملک کی پہرے داری کی۔ جس نے کارگل کے محاذ پر فتح کا جھنڈا لہرایا۔ جس نے فتح کیے گے کارگل کو واپس بھارت کے حوالے کرنے والے بھارت نواز نواز شریف کے اقتدار کا خاتمہ کیا۔ جس نے 65، 71 اور کارگل و سیاچن کےمحاذوں سےلیکر کشمیر کے ہر محاذ تک چار جنگیں لڑی۔ وہ شخص جس نے اپنی صدارت میں میڈیا کو آزاد خود مختار بنایا۔ اور میڈیا کے محاذ پر بھی دشمن کو خوب کاؤنٹر کیا اور ہر محاذ پر پاکستان کامقدمہ لڑا۔

جس نے اپنی مدت صدارت میں پاکستان کی معشیت کو مضبوط کیا قومی خزانے کو بھرا جس نے گوادر جیسے عظيم منصوبے کی بنیاد رکھی۔ جس نے چین کے تعاون سے پاک فضائیاں کو جے ایف تھنڈر 17 طیارہ سازی میں خود کفیل بنایا۔ جس نے اپنے دور میں پاکستان کو ہر سطح پر معاشی سیاسی اور معیاری استحکام پر گامزن کیا تھا۔

پاکستان کے ایک سابق آرمی چیف کو آئین شکنی کیس میں سپریم کورٹ کی جانب سے سزائے موت کے فیصلے پر دنیا بھر میں کیا تاثر دیا گیا ہے وہاں کے اخبارات میں اس خبر کو کس طرح پبلشن کیا گیا ہے کہ پاکستان کی عدلیہ نے پاکستان کے سابق فور اسٹار جنرل آرمی چیف کو آئین شکنی پر سزائے موت سنا دی۔ اور ملک کے بڑے بڑے مگرمچھ کرپشن خور ملک چور 90 کی دہائی میں عدلیہ پر حملہ کرنے والوں کو پاکستان کی یہی عدلیہ رہا کررہی ہیں۔

مشرف کے خلاف عدالتی فیصلے پر ملک بھر میں عوام نے پرویز مشرف پاک فوج کے حق میں ریلیاں نکال کر اپنی بھرپور یکجہتی کا اظہار کیا۔ کیونکہ مشرف کو سزا سنانے والی عدالت کی تشکیل ہی غلط تھی۔ اور یہ عدالت وفاقی حکومت کی منظوری کے بغیر ہی تشکیل دی گی تھی۔ اور مشرف کو اپنے دفاع کا حق بھی نہیں دیا گیا تھا۔

اس متنازع عدالتی فیصلے پر لاہور ہائی کورٹ نے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت کو کالعدم قرار دے کر نہایت ہی مثبت فیصلہ کیا ہے۔ اور لاہور ہائی کورٹ سے چند ہفتوں میں تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد مشرف صاحب کی سزا بالکل ختم ہوجائے گی۔