1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. محمد محسن شیخ/
  4. گرتا ہوا پارلیمانی نظام اور عمران خان

گرتا ہوا پارلیمانی نظام اور عمران خان

موجودہ پارلیمانی بوسیدہ نظام جو کہ بہت تیزی کے ساتھ خودبخود گرتا جارہا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ نظام گرتا چلا جائے گا۔
موجودہ پارلیمانی نظام کو کوئی گرا نہیں رہا بلکہ یہ نظام خود زمین بوس ہوتا جارہا ہے اس گرتے ہوئے نظام سے عمران خان کو اپنے آپکو بچانا ہے۔
اسد عمر پی ٹی آئی اور کابینہ سے الگ نہیں ہوئے اسد عمر کابینہ میں شامل ہے۔ جو لوگ میڈیا سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈہ کررہے تھے کہ اسد عمر استعفیٰ دینے کے بعد منظر عام سے غائب ہوگے ہیں عمران خان اسد عمر سے ناراض ہے تبھی عمران خان نے اسد عمر کو فارغ کیا ہے ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ یہ سب افواہیں اور جھوٹی قیاس آرائیاں تھیں۔
اب آپ خود دیکھ لیں اسد عمر صاحب نے اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوکر نالائق بلاول کی چھترول کردی۔
اسد عمر کابینہ میں شامل بھی ہے اور عمران خان کے قریب بھی ہے کیونکہ اسد عمر ایک قابل انسان ہے۔ اور اب اسد عمر کو کابینہ میں شامل کرکے پھر قائمہ کمیٹی برائے خزانہ تعینات کردیا گیا ہے۔
ادھر عمران خان صاحب نے وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ کو تعینات کرکے زبردست اقدام کیا ہے۔ اعجاز شاہ سابق آئی ایس آئی پنجاب رہے چکے ہیں۔ اور سسٹم کو خوب سمجھتے بھی ہیں۔ اور پھر دوسری جانب ‏حسین اصغرکی نیب DC تعیناتی اپوزشن حکومتی اراکین اورجن بیوروکریٹ کےکیسز پنڈنگ میں پڑے ہیں انکے کیلئے اچھی خبر نہیں ہیں۔
حسین اصغر FIA اینٹی کرپشنDG پنجاب اور پولیس میں بھی رہ چکے ہیں اور کسی کی سنتے نہیں ہیں انکی تعیناتیPTIکےاندر کےلوگوں نےرکوانے کی بھرپور کوششیں کیں مگر ناکام رہے۔ ادھر شبر زیدی کو ایف بی آر تعینات کردیا گیا ہے۔ شبر زیدی کی تعیناتی پر رکاوٹ ڈالی گئی مگر ناکامی رہی۔
بیوروکریٹ جوکہ عمران خان کے ساتھ بالکل بھی تعاون نہیں کررہے تو پھر ظاہر ہے متبادل حل تو نکالا جائے گا، نیب ایکٹیو ہے مگر نیب کی کارروائی بہت ہلکی رفتار سے چل رہی ہیں۔ ملک کا لوٹا گیا پیسہ ابھی تک واپس نہیں لیا گیا ملکی معیشت کا بیڑا غرق کرنے اور ملکی اہم اداروں کو گروی رکھ کر آئی ایم ایف سے پانچ سال قرضہ لینے والے مجرم اسحق ڈار کو آج تک گرفتار نہیں کیا گیا۔
اسی صورتحال کے پیش نظر ملک معاشی بحران کا شکار ہوچکا ہے حکومت اور عوام دونوں بری طرح پھنس چکے ہیں۔ ادھر آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر کی ڈیل ہوچکی ہیں یہ چھ ارب ڈالر تین سال تک قسطوں کی صورت میں پاکستان کو ملے گے۔ ضرورت تو آٹھ ارب ڈالر تھی لیکن ڈیل چھ ارب ڈالر کرنی پڑی تاکہ عوام پر بوجھ نہ پڑے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ چھ ارب ڈالر کا کتنا بوجھ عوام پر پڑے گا۔
اگر آج بدمعاشیہ کی حکومت ہوتی تو آئی ایم ایف سے سولہ ارب ڈالر کی ڈیل کرتے آٹھ ارب ڈالر اپنی جیبوں میں بھرتے اور آٹھ ارب ڈالر سے معیشت کو چونا لگا کر چلاتے اور اداروں کو گروی رکھ کر عوام کو مقروض کرتے رہتے۔
سابق حکومتوں کا خمیازہ موجودہ حکومت کو بھگتنا پڑرہا ہے۔ آج عمران خان حکومت کو روزانہ چھ ارب روپے قرضوں پر سود کی مد میں ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ اور بد بخت یہ قوم قرضے لینے والوں کے بجائے قرضہ اتارنے والوں کو گالیاں دے رہی ہیں۔
عمران خان کا ظرف اور حوصلہ تو دیکھو چاروں طرف سے عمران خان اکیلا کرپٹ سسٹم سے لڑ بھی رہا ہے، اور عوام کی تنقید بھی سن رہا ہے۔ اور اسی قوم کی بہتری کے لیے اپنا چین سکون برباد کرکے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دن رات کام بھی کررہا ہے بلا معاوضہ۔
ادھر بجٹ سے قبل رمضان کی آمد کے ساتھ خود ساختہ مہنگائی بڑھنے پر شور برپا ہے جبکہ اس خود ساختہ مہنگائی کی ذمہ دار حکومت نہیں منافع خور ہیں جو رمضان کی آمد کے ساتھ 100 کی اشیاء 200 اور 1000 کی اشیاء 2000 کی غیر اعلانیہ اور غیر قانونی فروخت کررہے ہیں۔ حکومت کو ملک بھر کے بازاروں مارکیٹوں کے دکانداروں کے خلاف فوری کارروائی کرنی چاہیئے۔
ادھر دو چار روز میں بدمعاشیہ نے ڈالر کی ذخیرہ اندوزی کرکے ڈالر کا مصنوعی بحران پیدا کیا گیا۔ یہ بدمعاشیہ اپنے مفادات کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتی ہیں ‏‎وزیراعظم صاحب اٹھو ڈنڈا پکڑو میڈیا سے لے کر ڈالر مافیا کی ہڈی پسلی ایک کردو، پوری قوم کی نظریں آپ پر ہیں کیونکہ اس قوم کی امیدیں آپ سے وابستہ ہیں پوری قوم ہم سب آپکے ساتھ ہیں مشکل کی ہر گھڑی میں آپکے ساتھ رہے گے۔ خان صاحب سب بدمعاشیہ کی چھترول کرو فوری اب وقت سوچنے کا نہیں عمل کرنے کا وقت ہے۔
ادھر احتساب کا عمل اپنے حتمی مراحل میں داخل ہوچکا ہےاور مزید تیزی سے کئی اہم گرفتاریاں ہونے جارہی ہیں۔ سندھ کے وزیراعليٰ مراد علی شاہ، بلاول زرداری، فریال تالپور اور آصف زرداری کے گرد نیب کا گھیرا ہر گزرتے دن کے ساتھ تنگ ہوتا جارہا ہے، اور حزب اختلاف اپوزیشن لیڈر شہباز شریف لندن میں سیر سپاٹے کررہے ہیں۔ نواز شریف چھ ہفتوں کی طبی ضمانت کے بعد دوباره جیل جاچکے ہیں۔ این آر او ہونے کی تمام افواہیں دم توڑ چکی ہیں۔ آپ یہ سمجھ رہے ہونگے کہ میاں صاحب کو مستقل ضمانت کے نام پر این آر او مل جائے گا اور وہ باہر چلے جائے گے نہیں ہر گز نہیں اس بدمعاشیہ کو کوئی این آر او نہیں ملنے والا یہ بات آپ اچھی طرح سمجھ لیں ریلیف مل جائے گا مگر کوئی این آر او نہیں ہوگا۔ احتساب کا عمل مزید تیز ہوتا جائے گا لوٹی گی ملکی دولت کو ان بدمعاشیہ سے نکلوایا جائے گا۔
موجودہ اسمبلیاں جو کہ irrelevant ہیں۔ اور بری طرح مفلوج ہوچکی ہیں سوائے عمران خان اور انکے چند ایک وزرا کے کوئی ذمہ داری کے ساتھ کام نہیں کررہا اسمبلیوں میں بیٹھ کر عوام کا کروڑوں روپیہ کھایا جارہا ہے اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالی جارہی ہیں لیکن عوام کے مسائل کی کوئی بات نہیں کررہا عوام کی کسی کو کوئی پرواہ نہیں۔
پی ٹی آئی کے کچھ لوگ ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے پس پردہ رابطے میں ہیں اور عمران خان صاحب کو بلیک میل کررہے ہیں کہ اگر آپ نے ہماری بات نہ مانی ہمیں فلاں وزارت نہ دی تو ہم ن لیگ پیپلزپارٹی میں چلے جائے گے۔ ادھر جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی میں شديد اختلافات جو کہ اپنی جگہ قائم ہیں عمران خان ان تمام صورتحال سے اور اس نظام سے بری طرح بیزار آچکے ہیں۔ اور سخت غصے میں ہیں ظاہر ہے غصہ تو بنتا ہے۔ اب عمران خان اکیلے اس نظام کو ٹھیک کرنے کے لیے دن رات انتھک محنت کررہے ہیں۔ مگر نظام نہیں چل رہا ملک چل رہا ہے۔
جو لوگ مہنگائی کو جواز بنا کر حکومت کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کررہے ہیں عوام میں مایوسی پھیلا رہے ہیں اور حکومت کے خلاف سازشیں کررہے ہیں اور بدمعاشیہ ایسے لوگوں کی سرپرستی کررہی ہیں یہ تمام عناصر اپنے ناپاک عزائم میں ہمیشہ کی طرح منہ کی کھائے گے۔ ‏بہت جلد عمران خان کی محنت رنگ لائے گی اور عمران خان کے خواب اپنی تکمیل کو پہنچے گے۔ اس نظام کے ساتھ پاکستان کو تاریکیوں میں دھکیلنے والی بدمعاشیہ بھی اپنے منطقی انجام کو پہنچے گی انشاء اللہ۔