1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. محمد محسن شیخ/
  4. مہنگائی بحران اور احتساب

مہنگائی بحران اور احتساب

بڑھتی مہنگائی اور حالیہ آٹے کے بحران کی وجہ یہ ہےکہ عمران خان جب اقتدار میں آیا تو اس کو وراثت میں ریکارڈ قرضے ملے اٹھارہ ارب ڈالر کا ریکارڈ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور تئیس سے پچیس ارب ڈالر کے ریکارڈ تجارتی خسارے ملے ملکی ادارے معشیت تباہ شدہ حال میں ملی اسکے ساتھ لاتعداد بحران مسائل ورثے میں ملے۔

دوسری طرف اکثریت پوری نہ ہونے پر عمران خان کو دل پر پتھر رکھ کر نہ چاہتے ہوئے اتحادیوں کے ساتھ ملنا پڑا یہ وہ اتحادی ہیں جو سال ہا سال سے ملک پر حکمرانیاں بدمعاشیاں کرپشن لوٹ مار اور اداروں کا بیڑا غرق کرتے رہے ہیں۔ کبھی حکومت میں تو کبھی اپوزیشن میں بیٹھ کر ملک اور عوام کا کچومر بناتے رہے ہیں۔

چالیس سالوں سے اس بدمعاشیوں کا احتساب بھی نہیں ہوسکا۔ اپنی حکمرانیوں میں یہ بدمعاشیہ اپنے بچاؤ کے قانون قوانین اور اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے آئین میں ترمیم سازی کرتے رہے ملک کی 72 سالا تاریخ میں آج تک کوئی برسر اقتدار میں رہے کر اس بدمعاشیہ کا احتساب نہیں کرسکا۔

سابق جنرل مشرف اپنے دور میں اس بدمعاشیہ کا احتساب کرنے لگے تو مشرف پر عرب ممالک کا دباؤ پڑا جس پر مشرف کو مجبوراً این آر او دینا پڑا۔ اب عمران خان کے احتساب کرنے پر پوری مافیا نے مل کر عمران خان کو پریشرائز کرکے بحرانوں اور مسائلوں میں الجھا کر رکھ دیا ہے جسکی وجہ سے احتساب کا عمل رک چکا ہے۔ اور عمران خان کے اپنے لوگوں نے خان صاحب کو شہر کی دلدل میں پھنسا دیا ہے۔

خان صاحب کو اپنے احتساب کے نعرے سے بالکل بھی پیچھے نہیں ہٹنا چاہیئے یہ سب ملکر خان صاحب کو بلیک میل کررہے ہیں پریشر ڈال رہے ہیں احتساب سے بچنے کے لیے وزیراعظم صاحب انکے کسی دباؤ بلیک میلنگ میں نہ آئے اور اپنے go to basic پر جائے جو خان صاحب کا بنیادی نعرہ تھا کہ میں انہیں نہیں چھوڑو گا کسی صورت میں کوئی سمجھوتہ نہیں کروں گا حکومت بھی جاتی ہیں تو جائے یقين جانیے یہ عوام عمران خان کے قدموں میں گر جائے گی۔ سانپ اگر نیولے کے منہ سے بچ جائے تو پھر وہ سانپ سے اژدهے بن جاتے ہیں۔

اگر یہ بدمعاشیہ مافیا اور اشرافیہ احتساب کے عمل سے بچ گی تو پھر یہ اژدھے بن جائے گے اور گھوم پھیر کر دوباره اقتدار میں آکر ملک کو اسی طرح لوٹتے نوچتے رہے گے۔ نواز شریف اپنے دور حکمرانی میں بیرونی اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر قانون سازی کرتے تھے۔ اور یہی سب کچھ پیپلزپارٹی نے اپنے دور حکمرانی میں کیا۔ اٹھارویں ترمیم زرداری نے اپنے دور صدارت میں کی اور معزول میاں نواز شریف اٹھارویں ترمیم کا بھرپور فائده اٹھا کر تیسری بار وزیراعظم بنے۔

اب عمران خان کو پہلی بار اقتدار ملا ہے انکے ساتھ تحریک انصاف کے چند گنتی کے لوگ نئے ہیں جو پہلی بار اسمبلی ایوان اور سینٹ میں منتخب ہوکر آئے ہیں باقی اکثریت انہی لوگوں کی ہیں جو سال ہا سال سے جماعتيں بدل کر اسمبلی سینٹ کے ممبران بنتے رہے ہیں۔ یہ بدمعاشیہ مافیا چاروں طرف ہر چھوٹے بڑے اداروں میں بیٹھی ہیں۔ اور یہی کرپٹ مافیا وزیراعظم ہائوس میں بھی بیٹھ کر رولا لپہ ڈال رہی ہیں۔

کہیں سیاسی عدم استحکام تو کہیں معاشی عدم استحکام تو کہیں دھرنے تو کہیں بلیک میلنگ مہنگائی کا روز بروز بڑھنا تو اب آٹے چینی کے بحران کے بعد اور پھر مزید بحران جہاں جہاں عمران خان صاحب کی حکومت ہیں۔ وہاں وہاں جان بوجھ کر بحران پیدا کیے گیے۔ آزاد کشمیر گلگت بلتستان میں عمران خان کی حکومت نہیں ہیں وہاں بحران کا نام و نشان تک نہیں ہوا کیونکہ ان سب میں عمران خان کے ارد گرد بیٹھے بیورو کرپٹ اتحادیوں سمیت حکومتی لوگ بھی ان بحرانوں کے ذمہ دار ہیں۔

ادھر سندھ سرکار نے سالانہ 36 کروڑ میں کرائے پر گودام لے کر اس میں 14 کروڑ کی گندم ذخیرہ کرکے دس سال تک 3 ارب 60 کروڑ ادا کر کے قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچاتے رہے جسکا خمیازہ آج تک عوام بھگت رہی ہیں۔ آپ کو پتہ ہے آٹے چینی دال یا سبزیوں پر ایک روپے کا اضافہ ہوتا ہے تو اس ایک روپے کے اضافے سے ٹوٹل ایک ارب روپے بنتا ہے۔ یہ اربوں روپے کیا عمران خان کی اپنی جیب میں گیا ہے نہیں یہ اربوں روپے مافیا کی جیبوں میں گیا ہے۔

عمران خان فیصلہ سازی میں اپنی حکمت عملی میں غلطی کرسکتے ہے لیکن عمران خان کرپٹ ہرگز نہیں ہوسکتے یہ وہ اندھا بھروسہ ہیں جو بطور پاکستانی میں اور یہ عوام عمران خان پر کرتے ہیں۔ یہ جو ٹرانسپیرنسی رپورٹ جاری کی گی ہیں یہ 2015 اور 2017 کی رپورٹ ہیں اور میڈیا نے اس رپورٹ کو بغیر سوچے سمجھے پبلک کردیا۔ ہمارا میڈیا تو خود ایک سب سے بڑی مافیا ہیں جو عوام میں مایوسی اور گمراہی پھیلا رہا ہے۔ موجودہ حکومت 15 ماہ میں 13 ارب ڈالرز قرضہ واپس کر چکی ہے وفاقی حکومت نے اگلے دو سالوں میں مزید 27، 28 ارب ڈالر قرضہ بھی واپس کرنا ہے۔ اٹھارہ ماہ میں جو ٹیکس حکومت نے جمع کیا تھا وہ قرضوں کے سود میں جا چکا ہے۔

مزید مہنگائی اور ٹیکسوں کا بوجھ وزیر خزانہ حفیظ شیخ اور گورنر اسٹیٹ بینک باقر رضا غریب عوام پر ڈالتے جارہے ہیں اور عمران خان کو معشیت کے بارے میں غلط اعداد و شمار بتائے جارہے ہیں خود وزیراعظم نے ان دو شخصیت سے پوچھا ہیں کہ کب تک غریبوں پر مہنگائی اور ٹیکسوں کا بوجھ کم ہوگا عوام بری طرح مہنگائی سے پریشان ہیں غریب کو تو ریلیف مل ہی نہیں رہا تو یہ معاشی ٹیم کے لوگ ٹال مٹول کرجاتے ہیں۔ اور عوام ایک عمران خان کی ذات کو دیکھ کر مہنگائی کا بوجھ برداشت کررہی ہیں کیونکہ عوام بخوبی جانتی ہیں کہ مہنگائی کے ذمہ دار عمران خان نہیں انکی معاشی ٹیم کے لوگ اور انکی پارٹی کے اپنے لوگ شامل ہیں جو مہنگائی میں اضافہ کرکے عوام کو عمران خان کے خلاف گمراہ کررہے ہیں۔ خان صاحب کی ساکھ کو خراب کررہے ہیں اور عوام اب بے وقوف نہیں جو گمراہ ہوجائے عوام میں اب شعور آچکا ہے۔ آپ عمران خان کو تو ایک طرف کردیں اور حکومت کو ایک طرف کرکے دیکھیں تو حکومت میں تمام وہی لوگ بیٹھے ہیں جو سال ہا سال سے اقتدار سسٹم میں موجود رہے ہیں۔

دودھ کی نہریں ایک دن میں نہیں بہہ سکتیں اور نہ ہی ستر سالوں کا گند پانچ سال میں صاف ہوسکتا ہے اس گند کو صاف کرنے کے لیے کم سے کم دس سال چاہیئے اور فوری صفائی کے لیے صدارتی نظام ہیں۔ اس سسٹم کو فوری ٹھیک کرنے کا بہترین حل صدارتی نظام ہے اب صدارتی نظام چھ ماہ بعد آئے یا ایک سال بعد آئے یا پھر 2023 میں آئے انشاء اللہ صدارتی نظام ایک نہ ایک دن آئے گا ضرور کیونکہ یہ بوسیدہ ناکاره سسٹم تو اپنی آخری سانسوں کے ساتھ لرزتا لڑکھڑاتا کاپنتا تیزی کے ساتھ اپنے منطقی اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ 30 سال سے جنکے غلام بنے رہے ہیں ہم اسی مافیا کے غلامی کے ثمرات ہیں مہنگائی کے شکل میں جو عوام کو مل رہے ہیں۔

بہ شکریہ: pakipolitics.com