1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. محمد محسن شیخ/
  4. چارٹر آف کرپشن

چارٹر آف کرپشن

غیر متعلقہ پارلیمنٹ غیر متعلقہ حکومت عمران خان نہیں سوائے عمران خان اور انکے چند وزرا سمیت سب کے سب غیر متعلقہ ہیں۔ اپوزیشن کا تو کوئی سر پیر ہی نہیں۔ اپوزیشن تو موقع کی تاک میں بیٹھی ہے کہ حکومت کو بحرانوں مسائل اور افراتفری میں الجھا کر احتساب کے عمل سے بچا جائے۔ عدلیہ اور نیب سے جان چھڑائی جائے حکومت کو بلیک میل کرکے این آر او مانگا جائے اور ملک سے فرار ہوا جائے۔ یا پھر عمران خان مائنس ون فارمولے پر عمل درآمد ہوجائے تو سب اچھا ہے لیکن ایسا ویسا کچھ نہیں ہونے والا اور نہ ہی آئندہ آنےوالے دنوں میں ایسا کچھ ہوگا۔
احتساب ہوگا اور کڑا احتساب ہوگا حکومت اپوزیشن، وکلاء، ججز، تمام بیوروکریٹ، میڈیا سمیت ان تمام لوگوں کا احتساب ہوگا جنہوں نے کرپشن لوٹا مار کرکے ملک کے اداروں کا بیڑا غرق کیا ہے بہتی گنگا میں جس جس نے ہاتھ دھوئے ہیں۔ ان سب کا بے لاگ احتساب ہوگا۔
فوج ایک سب سے بڑا منظم طاقتور ادارہ ہے جہاں اپنے جنرلز کو کرپشن اور غداری کرنے پر تین افسران کو سزائے موت اور ایک کو چودہ سال قید کی سزا دے کر تمام اداروں کو ایک سخت پیغام دے دیا ہے کہ ہمارے یہاں تو کرپشن اور غداری پر سزائے موت ہے۔ آپکے یہاں کیا سزا ہے۔
عید گزرتے ہی سامعين آپ نے دیکھا کہ ضمانتیں مسترد ہوتے ہی سابق صدر زرداری انکی بہن فریال تالپور کو جعلی کیس اکائونٹ میں نیب نے گرفتار کرلیا۔ حمزہ شہباز کو بھی ضمانت مسترد ہوتے ہی نیب نے فوری گرفتار کیا۔ ریاست مخالف تقریر کرنے پر گلالئی اسماعیل کو بھی گرفتار کرلیا گیا اور اب سب سے بڑے قومی مجرم اسحاق ڈار کو گرفتار کرکے پاکستان لائے جانے کا معاہدہ طے پاگیا ہے۔
یہ پاک فوج حکومت سمیت تمام ملکی اداروں کے زبردست اقدام ہیں۔ ریاست اور ریاستی ادارے اب واپس اپنی اعلیٰ ترین پوزیشن پر آچکے ہیں۔
یہ وہ مگرمچھ ہیں جنہوں نے نا صرف اس ملک کو لوٹا ہے بلکہ اس ملک کو کھوکھلا کرکے اسکے اداروں کو تباہ کرکے معشیت کا جنازہ نکال کر ملک اور عوام کو تاریکیوں میں دھکیلا ہے، اور آپریشن دھبڑ دھوس کے تحت مزید تیزی کے ساتھ بڑے بڑے مگرمچھوں کی گرفتاریاں متوقع ہیں اور تصادم کا بھی خدشہ ہے، مریم نواز کے خلاف ایک اور ریفرنس تیار ہورہا ہے۔ گرفتاریوں کے بعد اب اگلا مرحلہ لوٹی ہوئی دولت کو ان چوروں منی لانڈرز سے جو انہوں نے ملک کو200 ارب باہر کیا ہوا ہے تیزی سے واپس لانا ہے۔ اور لوٹا ہوا پیسا واپس آبھی رہا ہے چند شخصیات 50 سے 70 ارب ڈالر دینے پر آماده ہوچکی ہیں۔۔
حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کا تحریک چلانا مہنگائی کو جواز بنا کر عوام کو اکسانا ملک میں افراتفری پھیلا کر اپنے رہنمائوں کو قید سے آزاد کروانا انکا ایجنڈا ہے اور بدمعاشیہ اب اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔
ادھر وزیراعظم عمران خان نے سنہ 2008 سے سنہ 2018 کے دوران ملکی قرضوں میں اضافے کی وجوہات جاننے کے لیے تحقیقاتی کمیشن بنانے کا جو اعلان کیا ہے۔ یہ ایک زبردست اقدام ہے اس کمیشن کو بنانے میں حکومت سے زیادہ ریاست کا کردار ہیں۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے گزشتہ ادوار حکومت میں دس سالوں میں ملک کے قرضہ جات میں 24 ہزار ارب روپے کا اضافہ کیسے ہوا، ملک کا بیرون ملک قرضہ مشرف کے دور میں 39 سے 41 ارب بڑھا اور ان دونوں کے دور میں 41 ارب ڈالر سے 97 ارب تک کیسے بڑھا حسین اصغر کی زیر نگرانی بننے والے اس کمیشن میں وفاقی تحقیقاتی ادارہ ایف آئی اے ایف بی آر اور ایس ای سی پی اور خفیہ ادارے آئی ایس آئی اور آئی بی شامل ہوں گے۔
سابق صدر آصف علی زرداری کی گرفتاری، یہ تبدیلی نہیں تو اور کیا ہے زرداری جو کہتے تھے کہ نیب کی کیا مجال جو مجھے گرفتار کریں کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ بڑے بڑے برج الٹ جائے گے بڑے مگرمچھ جیلوں میں ہوں گے۔ انکے غرور تکبر خاک میں مل جائے گے۔
انہوں نے 2008 میں چارٹر آف ڈیموکریسی نہیں چارٹر آف کرپشن کیا تھا۔ یہ 2008 میں واپس آئے چارٹر آف کرپشن کے تحت اپنا نیب ہیڈ لگایا۔ دونوں نے فیصلہ کیا پانچ سال تمھارے پانچ سال ہمارے۔ چھ ہزار ارب سے قرضہ 30 ہزار ارب روپے پر پہنچایا ان دس سالوں میں پاکستان میں یہ چارٹر آف کرپشن تھا یہ مُک مکّا تھا۔
مریم نواز بی بی نے جو میڈیا اور سوشل میڈیا پر طوفان برپا کررکھا ہے انکے لیے عرض ہے بی بی تم ملکی لوٹی ہوئی دولت واپس کرو جتنی مرضی بے نظير بننے کی کوشش کرلو تم جتنا مرضی چیخو چلاو مگر اب سیاست میں تمہارا کوئی مستقبل نہیں یہ ملک تمہاری جاگیر نہیں ہے، عوام اب جاگ چکی ہے، 24000 ہزار ارب کا حساب تو اس قوم کو دینا ہی پڑے گا۔