1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید ابرار حسین/
  4. کمزوراوراناڑی امپائیرز

کمزوراوراناڑی امپائیرز

کمزور اور اناڑی امپائیر میچ تو مکمل کرا دیتے ہیں مگر سپرٹ آف دی گیم کی دھجیاں بکھیر کے رکھ دیتے ہیں۔ اناڑی امپائیر پریشر میں اگر کوئی غلط فیصلہ کر دے تو دوسری بار غلطی جان بوجھ کرکرتے ہیں سابقہ غلطی کا مداوا کرنے کیلیے۔ وہ سمجھ رہیے ہوتے ہیں کہ ایک بیٹسمین کو غلط آوٹ دیکر ہم نے جو غلطی کی ہے اس سے بیٹنگ سائیڈ کا نقصان ہو گیا ہے لہذا اب جو بیٹسمین آوٹ ہو گا اسے آوٹ نہ دیکر ہم نے حساب برابر کر دیا ہے۔ مگر حقیقت میں اور قانون کی روح سے اس نے دوسری غلطی بھی کردی۔ قانون یہ کہتا ہے کہ اگر کسی بھی وجہ سے آپ سے غلطی ہو گئی ہے تو اپنے ہوش و حواس برقرار رکھیں اور مذید غلطی نہ کریں۔ مگر چونکہ اناڑی اور نان کوالیفائیڈ امپائیرز میں پریشر برداشت کرنے کی سکت نہی ہوتی اور سپرٹ آف دی گیم کی ان کے ہاں اہمیت نہی ہوتی لہذا وہ وقت ٹپاو طریقے سے میچ کا اختتام کراتے ہیں۔ اور قانون سے نابلد دونوں ٹیمیں خوش ہو جاتی ہیں کہ چلو حساب برابر کر دیا ہے۔ اور ایشو وقتی طور پر دب جاتا ہے اور ان اناڑیوں کی موجیں لگی رہتی ہیں اور گیم کا ستیاناس آہستہ آہستہ ہوتا رہتا ہے۔ اوپر سے یہ اناڑی امپائیر سینہ چوڑا کر کہہ رہیے ہوتے ہیں دیکھو جی ہم نےکتنے مشکل حالات میں میچ کرائے ہیں اورداد بھی سمیٹ رہیے ہوتے ہیں۔

یہی صورتحال ہمارے ملک پاکستان کے اداروں کی بھی ہے۔

1: ہمارے سیاسی ادارے یعنی جماعتیں یہ بھی وقتی مفاد کی خاطر جمہوریت کی اصل روح سے نابلد ہی رہتی ہیں اور اپنے پرنسپل سٹینڈ سے ہٹنے میں دیر نہی لگاتیں۔ جمہوری سپرٹ کی اہمیت انکے ہاں بھی ثانوی ہے۔

2: ہماری عدالتیں وہ بھی حالات کے مطابق فیصلے کرتے ہیں قانون کی اصل روح کو وہ بھی نہی منواتیں۔ قانون کی اصل روح یہ ہے کہ چھوٹا بڑا امیر غریب۔ سرکاری غیرسرکاری فوجی سیول سردی گرمی خزاں بہار دیکھے بغیر قانون کے مطابق فیصلہ دیا جائے۔ جبکہ پاکستان میں ایسا بالکل نہی ہوتا یہانپر خاتون کو اٹھارہ سال ناکردہ قتل کے الزام میں جیہل میں رکھا جاتا ہے اور نواز شریف اور عمران خان کے کیسوں کو سال کے اندر تفتیش مکمل کر کے فیصلے کیے جاتے ہیں اسلیے کہ وہ اشرافیہ ہیں وہ پریشر ڈالتے ہیں وہ موسم بدلنے کی سکت رکھتے ہیں وہ جلد فیصلے کرواتے ہیں انکے پیچھے ہاتھ ہوتے ہیں عوام کے دوسرے اداروں کے دوسری قوتوں کے اسلیے علدالتوں پر پریشر آتا اور وہ قانون کی سپرٹ کو ملحوظ خاطر رکھے بغیر دن رات سماعت فرماکر فیصلے صادر فرما کروقت ٹپا دیتے ہیں۔ اور ہمارے قوانین کا ستیاناس ہو رہا ہے۔ اورسب سے بڑا مسلہ یہ بھی نہی دیکھا جاتا کہ جو مسلہ آیاہے یہ قانونی طورپر حل کرنے کا ہے بھی کہ نہی۔ کہیں یہ کسی اورفورم کا تو نہی ہے ? اوراوپرسے ہمارے یہ جج حضرات داد بھی سمیٹ رہیے ہیں۔

3: یہی حال ہمارے سب سے اعلا فوجی ادرے کا ہے اس ادارےپرعوام اپنی جان نچھاورکرنے کو تیار ہوجاتی ہے مگر پھر اس میں یخحی ضیاء مشرف پاشا جیسی شخصیات سامنے آتی ہیں تو وہ محبت نفرت کا ایندھن بن کر کسی نیی تحریک کاپیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں۔ یہ حضرات بھی آئین پاکستان کی روح سےتجاوز کرتے ہیں ملکی حألات کا بعانہ بنا کر۔ سیاستدانوں کی بلوائیوں سے صلح کراتے ہیں ٹکٹیں دلاتے ہیں اپنے اوپر پارٹیوں کو فنڈ کرنے کے الزامات فٹ کراتے ہیں۔ سیاسی رہداریوں پرنظر رکھنے کیلیے اپنا اصل کام سرحدوں کی دیکھ بھال پس پشت ڈال دیتے ہین اور سرحد پر جری جوان اپنی شہادتیں پیش کرکے عوام مین انکی لاپروائی پرپردہ ڈالتے ہیں۔ مگر آئین کی روح تڑپ تڑپ کرمرجاتی ہے۔

4: اسی طرح کی حالت علماء کرام کی بھی ہے سیاسی مصلحتوں کا شکار ہو کر یہ بھی دین کی اصل روح کو ثانوی حیثیت دیتے ہیں ذاتی اور سیاسی مفادات کی خاطر ایسی ایسی قوتوں کا آلہ کار بن جاتے ہین جن کا رتبہ ان سے حقیقت مین کہں کم ہوتا ہے۔ یہی وجہ ان دین کے وارثوں کو طبقات میں منقسم کردیتی ہے۔