1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید تنزیل اشفاق/
  4. آج تم یاد بے حساب آئے

آج تم یاد بے حساب آئے

ہم جب سوچتے ہیں تو سوچتے ہی چلے جاتے ہیں، شاید اس لئے کے سوچ کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ سوچ انسانی دماغ کی وسعتوں کا پہناوا پہن کر اور شعور کے پروں کی مدد سے اڑان بھرتی ہے۔ سوچ تو پھر سوچ ہے، کچھ بھی سوچا جا سکتا ہے۔ ایسا بھی جو زمانے کی نظر میں قابلِ گرفت ہو یا پھر قابلِ صد ستائش۔ فرق صرف یہ کہ صرف اس سوچ کا عموما اظہار ہو پاتا ہے جو زمانے کے لئے قابل قبول ہو، ورنہ زمانے کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

یہی سوچ الحاد کی دھلیز پہ پہنچا دیتی اور یہی سوچ ولایت کے دروازے پہ لے جاتی ہے۔ کیا سوچ کو طنابیں ڈالی جاسکتی ہیں؟ جب گانے والا نصرت فتح علی خان جیسا مہان گلوکار ہو اور "تم ایک گورکھ دھندا ہو" کی شاعری ہو، سوچ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ اگر ظرف کمزور ہو تو منزل کیا ہوگی کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ یہ امر پُلِ صراط پہ گزرنے کی مانند ہے کہ زرا سی بھول چُوک یا ڈگمگاہٹ کے سبب انسان خسارے کا سامان کر بیٹھے۔

جب ہم سے کوئی ایسا چھن جاتا ہے کہ جس کے بغیر ہم جینے کا تصور بھی نہیں کرسکتے یادوں کے دریا میں سوچوں کے زور دار دھارے آپ کو دریا میں غرق کر دیں یا زندگی کے کنارے لگا دیں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ لیکن اگر اعصاب مضبوط ہوں، ظرف چھلکنے والا نہ ہو تو پھر اس دریا میں بہنے کا لطف آتا ہے، کہ اس صورتحال میں اِدھر ڈوبےاُدھر نکلے والا حساب ہوتا ہے۔

یہ زندگی بھی "ون وے ٹکٹ" والا حساب ہے، زندگی کی فلائٹ چھوٹ گئی تو پھر صرف سوائے موت کے کوئی منزل نہیں رہتی۔ ہم پیچھے رہ جانے والے سوائے سوچ اور تخیل کے سہارے جانے والے سے رابطہ کرپاتے ہیں۔ اس زندگی میں اللہ کے کئی بندے یقینا ایسے ضرور ہونگے جنکی رسائی ما بعد زندگی ہوگی۔

یہ سوچ وہ واحد تعلق رہ جاتا ہے جو ہمارے اور جانے والے کے درمیان رہ جاتا ہے۔ یہ سوچ بھی وہ علامت ہے جو اس بات کا اعادہ کرتی ہے کہ جانے والا ہمارا کچھ لگتا تھا۔ قبر، مزار، لوحِ مزار یہ سب علامتیں ہی تو ہیں جو یہ بات کا اظہار کرتی ہیں کہ یہ بھی کبھی موجود تھے۔ جانے والوں کا تذکرہ جو ہماری گفتگو کے حوالوں میں ہوتا ہے یہ بھی علامت ہے کہ وہ تھا۔ انسان کے چلے جانے کے بعد یا تو جانے والا بھول جاتا ہے یا پھر پہلے سے بھی زیادہ ٹوٹ ٹوٹ کے یاد آتا ہے۔ ہمارے ساتھ معاملہ دوسرا ہے۔ جیسا کہ فیض نے کہا۔۔

ہر رگِ خوں میں پھر چراغاں ہو
سامنے پھر وہ بے نقاب آئے

کر رہا تھا غم جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے

نہ گئی تیرے غم کی سرداری
دل میں یوں روز انقلاب آئے

ایسے میں کیا کیا جائے؟کیا گھٹ گھٹ کے مرا جائے یا پھر مر مر کے جیا جائے؟ یا پھر اس یاد کی سوچ کو اپنی زندگی کے گزارنے کا ایک مضبوط ستون بنایا جائے، اتنا مضبوط کہ جس پہ ہم اپنی باقی ماندہ زندگی کا بوجھ ڈال سکیں۔ میرا خیال ہے کہ دوسرا انتخاب درست ٹھرے گا۔

ہمارے ابا جی سید اشفاق حسین بخاری جب سے ہم سے دور اپنی منزلِ حقیقی کی طرف گئے ہیں، ہمارا گزرا ہر روز ان کے تذکرے، انکی یادوں، باتوں، انکی نصیحتوں سے مہکتا رہتا ہے۔ ان سے منسوب تمام علامتیں یہ بتاتی ہیں کہ تمھارا کوئی محسن ہے۔ ہمیں یہ تمام علامتیں بہت عزیز ہیں۔

انکے پہنے ہوئے کپڑے جو اب ہم زیب تن کرتے ہیں، کیا مقامِ فخر ہوتا ہے ہمارے لئے، کیا خوشی ملتی ہے بیان سے باہر ہے۔ انکی قبر کا لوحِ مزار جو انکا نام اپنے سینے پہ کندہ کئے ان کو مجسم کرکے ہمارے سامنے کھڑا کردیتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ تاکید کرتا ہے کہ رہار رہو جلد تمہاری ملاقات ہوگی، جس کا ہمیں بھی شدت سے انتظار ہے۔

ہمیں انکی قبر سرہانے لگے ان پودوں سے پیار ہے جنہیں ان کا قرب ِمسلسل میسر ہے۔ ان پھولوں پہ لگے پھول اور انکی خوشبو اس بات کا پتہ دیتے ہیں کہ جانے والی شخصیت بھی اتنی خوبصورت تھی کہ جو اب بھی اپنے بارے سوچنے والوں کی اذہان معطر کر دیتے ہیں۔ اب بھی ان کا نام لینے والے احترام سے ان کا نام لیتے ہیں اور ایک عجیب انبساط محسوس کرتے ہیں۔

ہم اپنے مولاؑ کریم سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمارے ابا جی کے مزید درجات بلند کرے اور ہمیں اس قابل کرے کہ جب ہم انکی بارگاہ میں حاضر ہوں کہ وہ ایک مسکراہٹ کے ساتھ کہیں کہ تنزیل آپ خوب کر آئے۔

اللہ تعالیٰ آپ سب کو آسانیاں عطاء فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطاء فرمائے۔

سید تنزیل اشفاق

سید تنزیل اشفاق، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے فارغ التحصیل، سافٹ ویئر انجینیر ہیں۔ اردو، اسلامی، سماجی ادب پڑھنا اور اپنے محسوسات کو صفحہ قرطاس پہ منتقل کرنا پسند کرتے ہیں۔