1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید تنزیل اشفاق/
  4. آخری کھانا

آخری کھانا

بھوک لگنے کا تعلق انسانی جبلت ہے سے، اس ضرورت کی تکمیل کے لئے انسان نے جس انداز سے ارتقائی منازل طے کی ہیں وہ قابل قدر ہیں۔ آپ شاید ہی پیٹ کی بھوک مٹانے کے لئے پکوان گن سکیں۔ یعنی داد دینی چاہئے لذتِ لسانی کے لئے کیا کیا ذائقے متعارف ہو چکے۔ اگر جناب آدم علیہ السلام آج کے دور میں آئیں تو حیران اور پریشان ہو جائیں کہ کھانے پینے کے معاملات میں اتنی ورائٹی ان کے زمانے میں بالکل بھی نہیں تھی۔ ایسی ایسی ورائٹی کہ ایک ایک پکوان کے برانڈز بن چکے ہیں۔

ہماری نظر میں کھانا برائے زندگی ہونا چاہئے نہ کہ زندگی برائے شکم پُری۔ ضرورت سے ذیادہ جو بھی ہو اچھا نہیں ہوتا۔ ویسے بھی کہتے ہیں، ہر چیز میزان میں اچھی لگتی ہے۔ ہم برصغیر پاک و ہند کے عوام بطور مجموعی ہر سمت میں متشدد نظریات کے حامل ہیں۔ سیاست، مذہب، سماج، رفاحی اور شکم پُری کے معاملات تمام کے تمام متشدد نظریات اور عملیات کے حامل ہیں۔

گجرانوالہ کے ایک صاحب ہیں۔ اپنی صبح کا آغاز سری پائے، زبان، مغز، نلی اور نان سے کرتے ہیں۔ راوی روایت کرتے ہیں کہ جب وہ ہوٹل میں آکے ناشتہ کرتے ہیں تو پھر صرف وہی کرتے ہیں۔ دو تین گھنٹے ناشتے کا دور چلتا ہے، ساتھ میں مالشی سر کی مالش لگاتار کرتا اور دابتا رہتا ہے۔ صرف آدھے گھنٹے کی بریک ہوتی ہے ذرا سستاتے ہیں کہ دوپہر کے کھانے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ دوپہر کے کھانے میں موصوف کما حقہ انصاف کرتے ہیں۔ دوپہر اور رات کے کھانے میں مشکل سے دو یا تین گھنٹے کا وقفہ آتا ہے۔ موصوف سے صحافی نے سوال کیا کہ آپ اتنا کھاتے ہیں کیا سَیر ہو جاتے ہیں؟ قربان جایئے ان صاحب کے، گویا ہوئے، یہ جو ایک سے تین گھنٹے کا وقفہ آتا ہے یہ اس لئے نہیں آتا کہ میں "رَج" جاتا ہوں، بلکہ اس لئے آتا ہوں کہ میں "تھک" جاتا ہوں۔۔۔۔۔

ہم بہت کم شادی بیاہوں میں شرکت کر پاتے ہیں۔ پہلی وجہ ہماری تساہل پسند طبیعت اور دوسری وجہ بھی تساہل پسند طبیعت۔ لیکن بعض اوقات "مرتا کیا نہ کرتا" کے مصداق شرکت نہ کرنا "گناہ کبیرہ" ٹھہرتا ہے۔ گزشتہ شب ایک ولیمے میں شرکت کا موقع ملا۔ داعیان نے پرتپاک طریقے سے استقبال کیا۔ تشریف فرما ہوئے۔ کھانا شروع ہونے سے کوئی 10 منٹ قبل ایک صاحب ہماری ساتھ والی نشست پہ تشریف فرما ہوئے۔ اکیلے نہیں ساتھ میں ایک عدد بچہ بھی۔ موصوف کی پہنچ سے کھانا کچھ دور تھا، لگے اپنی کرسی گھسیٹنے کھانے کی طرف۔ میں نے محسوس کیا کہ موصوف کو گنجائش دی جانی چاہئے کہ کھانا مکمل طور پہ انکی "پہنچ" میں آجائے۔

جیسے ہی موصوف منزل مقصود پہ پہنچے، اب موصوف بچے کی کرسی گھسیٹنے لگے۔ پھر ہمت کی کہ انہیں مزید گنجائش دی جائے۔ مقصد کا حصول ہوتے ہی، جیسے انہوں نے اعلان کیا ہو کہ، بس بھئی بس، میز پہ میرا قبضہ ہوچکا، یہ میز اب میری ہے، کوئی یہاں سے "بوٹی" نہ اٹھائے۔ موصوف خود تو کھا ہی رہے تھے لیکن اپنے ساتھ آئے بچے کو زبردستی کھلا رہے تھے، بچہ تھا کہ مسلسل انکار کئے جا رہا تھا کہ بس اور نہیں کھانی۔ جواب ملتا کھاؤ، کھاؤ، کھاؤ گے نہیں تو بڑے کیسے ہوگے۔۔۔۔ بریانی کی آدھی پلیٹ میں، جس کا نمبر نہ جانے کیا تھا ہم آخری پلیٹ کہہ لیتے ہیں، میں دہی کا "ڈونگا" اس انداز سے پلٹا کہ ہمیں لگا کہ شاید کوئی ایٹمی تجربہ کرنے لگے ہیں۔۔۔

بات میٹھے کی آئی تو لگا کہ شاید اب لڑائی ہوجائے گی۔ ابھی قلفہ کی ٹرے کو رکھے 2 منٹ بھی نہ ہوئے ہونگے کے میدان صاف تھا۔ ولیمے کی اکثر دعوتیں، دعوت کم اور میدان شکم پُری میں جہاد ذیادہ لگتا ہے۔ کھانا یوں کھایا جاتا ہے گویا یہ "جہاں اکبر" کر رہے ہو، گویا یہ زندگی کا آخری کھانا ہے، گویا میدان جنگ سے مالِ غنیمت لوٹا جارہا ہو۔ ذیادہ سے ذیادہ لوٹ لو۔

مزے کی بات یہ، کہ گھر جا کے آدھی ڈبی "کارمینا" کا استعمال ضرور ہوتا ہے تاکہ معاملات "قبض" کا شکار نہ ہوں۔ اللہ کے بندو، کس حکیم نے کہا ہی کہ یوں کھاؤ اور پھر ہاضمے کی گولیاں نگلو۔

اعتدال، حضور اعتدال۔ ہر حال، ہر سمت اعتدال۔ کھانا زندگی میں اگر لکھا ہے تو کھا کے مریں گے۔ آپ کے حصے کا لکھا کوئی اور نہیں کھا سکتا۔ تھوڑا حوصلہ، اطمنان اور صبر کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔

اللہ کریم ہم سب کو آسانیاں عطاء فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطاء فرمائے۔

سید تنزیل اشفاق

سید تنزیل اشفاق، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے فارغ التحصیل، سافٹ ویئر انجینیر ہیں۔ اردو، اسلامی، سماجی ادب پڑھنا اور اپنے محسوسات کو صفحہ قرطاس پہ منتقل کرنا پسند کرتے ہیں۔