1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید تنزیل اشفاق/
  4. آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں

حضرت انسان کو تخلیق ہوئے اک زمانہ ہوا اور مسلسل یہ تہذیب و تمدن کے مدارج طے کرتا چلا جا رہا ہے۔ یہ سلسلہ نسل در نسل منتقل ہوتا رہا۔ جتنا ورثہ ایک نسل دوسری نسل میں منتقل کرتی، آنے والی نسل اس تہذیب کو مزید ترقی دیتی چلی جاتی۔ اس دوران ایسا بھی ہوا کہ پورے کا پورا علاقہ صفحہ ہستی سے مٹ گیا مگر ترقی کا یہ سلسلہ نہ رکا اور ترقی کی منازل طے کرتا رہا۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے اور تا قیام قیامت جاری رہے گا۔ سوچنا یہ ہے کہ تہذیب کی یہ ترقی بلعموم انسانوں پہ کتنا اثر انداز ہوتی ہے۔ اور اس اثر کا نتیجہ مثبت نکلتا ہے یا منفی۔

آج کا انسان اس دور میں جی رہا ہے جب اسکی دسترس چاند، مریخ اور نہ جانے کس کس گوشے تک ہے۔ گزشتہ کل کا انسان یہ سب سوچ بھی نہیں سکتا تھا جسے آج کے انسان نےحاصل کر لیا ہے۔ گزشتہ کل کا انسان انٹرنیٹ کے حصول میں جتنی مالی ، جانی مشکلات کا شکار تھا، آج کا انسان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ آج حضرت انسان نت نئی ایجادات کی منڈی میں رہتا ہے۔ اک زمانہ تھا جب انسان سواری کا تصور نہیں کر سکتا تھا اور پیدل سفر واحد ممکن حل تھا، پھر ترقی ہوئی تو یہ کدھے، گھوڑے پر منتج ہوا، مزید ترقی نے سائیکل متعارف کروائی، وقت کے گزرنے نے گاڑی سے متعارف کروایا۔ جب انسان نے محسوس کیا کے مزید ترقی ہو تو انسان نے ہوائی جہاز کی سواری کی، سوپر سونک جیٹ اور نہ جانے کیا کیا۔۔۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ تہذیب کا اتنا ورثہ اور ایجادات کا یہ سمندر انسان کو انسان بنانے میں کامیاب ہوا یہ نہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ وہ انسان جس نے ساری زندگی ایک مکھی نہ ماری تھی بالآخر ایٹم بم بنانے کی وجہ بنا؟ خیر ہم بھی بات کدھر لے گئے۔ یہ نہ ہو کہ ہم پر کوئی فتویٰ فٹ ہو جائے۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ انسان کتنا بے چارہ ہے کہ اکثر وہ جو کچھ دیکھتا ہے اسے بیان کرنے سے قاصر رہتا ہے۔

ہوا کچھ ہوں کہ ان آنکھوں نے کچھ ایسا دیکھا جو شاید بیان کرنے سے ڈرتا ہوں۔ وجہ وہی تہذیبی ورثہ ہے۔ لیکن پھر سوچتا ہوں کہ ہمت کر کے بیان کر ہی لوں کہ شاید کسی بھٹکے ہوئے کی تصحیح کا باعث بن جائے۔ ایک دن دفتر سے جمعہ پرھنے کی خاطر سواری پہ سوار ہوا اور مسجد کی جانب گامزن ہوا۔ راستے میں بچیوں کا سکول آتا ہے، عموما اس وقت چھٹی کا وقت ہوتا ہے، ابھی سکول سے آگے پہنچا کہ دو بچے جن کی عمر بھی سکول جانے والی تھی بے ہنگم طریقے سے موٹر سائیکل چلا رہے تھے، کہ رفتار آہستہ کر کے سڑک پہ کھڑی بچیوں کو ناقابل بیان جملہ چست کر کے رفتار تیز کی اور چلتے بنے۔ یہ سلسلہ دو تین بار دہرایا گیا۔ دل کو اچھا نہ لگا سوچا ان کی خبر لی جائے۔ میرے دل میں یہ تھا کہ انہیں دھمکاوں گا تو یہ چلے جائیں گے۔ لیکن صاحب وہ تو بلا کے ڈھیٹ تھے الٹا مجھے ڈرانے لگے۔

دوسرا واقعہ بھی راہ چلتے کا ہے، دفتر سے واپسی پراپنے گھر کے نزدیک مرکزی شاہراہ پر گزرتے دیکھا کہ دو نوجوان موٹر سائیکل سوار دوران سواری راہ چلتی خاتون جسکی عمر شایدانکی ماں کے برابر ہو، ایسی حرکت کی جو ناقابل بیان ہے۔ میں نے کوشش کی کہ انکا پیچھا کروں اور انکو کچھ شرم دلاوں مگر وہ تیزرفتار سواری پر سوار تھے ۔ میں کچھ چاہ کر بھی کچھ نہ کر سکا سوائے سوچنے کے کہ ہم کس ڈگر پر چل نکلے ہیں۔

تیسرا واقعہ گزشتہ جمعہ کا ہے، نمازِ جمعہ کی ادائیگی سے واپسی پہ دیکھا کہ ایک کالج کی بچی اپنے گھر کی جانب گامزن تھی، مکمل نقاب پوش۔ اسکے برابر میں ایک صاحب، جو صاحب داڑھی تھے، گاڑی آہستہ کر کے اس بچی کو کچھ ناشائستہ اشارے کر رہے تھے اور گاڑی میں بٹھانے پر اصرار کر رہے تھے۔ بچی بے چاری ڈر اور غصے کے ملے ہوئے جذبات سے ہاتھوں کو ہوا میں اٹھا کہ احتجاج کرتی رہی۔ اتنی میں میں نے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہوئے ہارن دیا کہ اسے کچھ شرم آجائے۔ اس طرح اس بچی کی جان خلاصی ہوئی۔

قارعین، جب یہ چیزیں دیکھتا ہوں تو ڈیپریشن کا شکار ہو جاتا ہوں کہ کیا اشرف المخلوقات اسی کو کہتے ہیں۔ جو حلال کو حرام کے بدلنے پہ مصرہے؟ ایک لمحے کو یہ سب کرنے والے سوچیں اگر ان تین خواتین کی جگہ آپ ہی کی بہن، بیٹی یا ماں ہو تو۔۔۔۔۔۔ خدارا، کسی کی ماں، بہن اور بیٹی کی عزت کیجئے تاکہ آپ کی ماں، بہن اور بیٹی کی عزت ہو۔

سید تنزیل اشفاق

سید تنزیل اشفاق، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے فارغ التحصیل، سافٹ ویئر انجینیر ہیں۔ اردو، اسلامی، سماجی ادب پڑھنا اور اپنے محسوسات کو صفحہ قرطاس پہ منتقل کرنا پسند کرتے ہیں۔