1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید تنزیل اشفاق/
  4. ادب شناس قوم؟

ادب شناس قوم؟

ہفتہ کا دن تھا اور وقت پونے نو بجے تھا۔ ہم اپنے والد محترم کو انکے دفتر چھوڑنے کا ارادہ باندھ گر گھر سے نکلنے لگے۔ ابھی گھر سے باہر نکلے ہی تھے کہ دل میں ایک خیال آیا کہ کیوں نہ آج مٹر گشت کی جائے اور ایک دو کام بھی نبٹا لیا جائے۔ برادو خورد کو دعوتِ سفر دی، کچھ لمحے گزرے کے والد محترم نے ارشاد فرمایا کہ جس کام سے جانے کا ارادہ ہے ابھی مارکیٹ کھلی نہیں ہوگی، لھٰذا مجھے چھوڑ کے واپس آجانا۔ ارادہ ایک مرتبہ توٹتا محسوس ہوا، مگر پھر عزم صمیم کے تحت برادر خورد کو حکم نامہ سنایہ کہ سواری پہ سوار ہو جاو۔ یوں ہمارے سفر کا آغاز یوں ہوا کہ ہم، والد محترم اور برادو خورد اپنے ارادے کے تحت سڑک ناپنے لگے۔

والد محترم کو انکے دفتر چھوڑا اور پھر مٹرگشت کا آغاز ہوا۔ ابھی منزل سے کچھ ہی دور تھے کہ اندازہ ہوا کہ واقعی ہم وقت سے پہلے ہی وارد ہو رہے ہیں۔ عازم سفر ہونے سے پہلے ناشتہ نہ کر سکے سو بھائی سے پوچھا کہ ناشتے کا کیا ارادہ ہے، جواب مثبت پا کر سواری کا رخ انار کلی فوڈ سٹریٹ کی جانب موڑ دیا۔ لیکن کافی عرصہ بعد وارد ہوئے تھے سو انتخاب نہ کر پائے کہ کیا کھانا چاہئے؟ ایسے میں ایک ہوٹل کے باہر کافی رش تھا، اسی رش کو کامیاب ہوٹل سمجھتے ہوئے ہم بھی تشریف فرما ہوئے۔ ناشتہ کے بعد پھر گھڑی کی جانب نظر دوڑائی ، گھڑی نے ہمارا منہ چڑاتے ہوتے آگاہ کیا کہ ابھی بھی بہت وقت ہے۔۔ سوچا اب کیا کیا جائے، سو ایک ترکیب ذہن میں آئی اور ایک مرتبہ پھر سواری خرامہ خرامہ چل پڑی۔۔

انار کلی بازار گزر کے ہم بائیں طرف مڑ گئے، بخوبی جانتے تھے کہ کہاں جا رہے ہیں۔ وہاں پہنچنے پہ مطلع ہوئے کہ ابھی کاروبار زندگی مکمل طور شروع نہیں ہوا۔ بہر طور ایک دو دکان کھلی ہوئی تھی۔ سو اسی نے دل کو حوصلہ دیا۔ یہ علاقہ پرانی کتابوں کے لئے مشہور ہے۔ سو لگے دیکھنے پرانی کتابیں، ہمارا محور پرانے ناول تھے۔ کتابیں پھرولتے پھرولتے ایک کتاب ہمارے ہتھے لگی۔ یوں تو یہ شاعری کی کتاب تھی اور ہمارا مطمع نظر بھی نہ تھی مگر دو باتوں نے ہماری توجہ اس جانب مبضول کروائی۔ ایک توکتاب کی مصنفہ نے اپنی کتاب پر آٹوگراف دے رکھا تھا، جس میں خلوص اور پیار کے ساتھ کتاب دی جا رہی تھی۔ کتاب کو اپنے ہاتھ میں تھامے سوچتا رہا کہ یہ کیسا خلوص ہے اور کس محبت سے کتاب دی گئی؟ جس کی قدر اس بندے نے نہیں کی۔ عموماََ ایسی کتاب ایک تحفہ اور ایک یادگار ہوا کرتی ہے مگر ایسی کتاب کا اس جگہ پایا جانا نہایت دل شکن تھا۔

اگر تو یہ کتاب ہم جیسے کسی عام قاری کو دی جاتی اور پھر وہ کتاب یہاں پائی جاتی پھر بھی کسی حد تک مقام افسوس تھا مگر ایک شاعرہ کی جانب سے ایک شاعر کو دیا ہوا تحفہ اس مقام پر ملے تو یہ مقام افسوس بھی ہے اور مقام تفکر بھی۔ تب سے اب تک وقت پریشانی میں گزر رہا ہے اور مسلسل سوچ رہا ہوں کہ کیا کسی شاعر ادیب کو اپنا کلام چھپوانا چاہئے؟ جبکہ اس کی کتاب کسی ناہل دکاندار کے سٹال پر ملے جسے وہ صرف 50 روپے میں سیل لگا کر پیچ رہا ہو۔ یوں تو ہم بھی خود ساختہ شاعر ہیں اور جو کچھ لکھا بھی ہے وہ اول تو ہے ہی ناقابل اشاعت ، پھر بھی ہمیں وہ غزلیں اپنی اولاد کی طرح ہیں۔ چہ جائیکہ کوئی انکی تزہیک کرے۔

اسی لئے شاید کتاب کی قیمت بڑھ گئی ہے کہ اول تو کوئی کتاب خریدے نہیں جو خریدے وہ اس کی قدر کرے۔ میرے خیال میں ادیبوں اور شاعروں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی کتب جب کسی کو ہدیہ کریں تو بندہ دیکھ کے دیا کریں، مبادا انکی کتاب کو بھی اسی انجام کا شکار نہ ہونا پڑے جس کا رونا ہم رو رہے ہیں۔ یہ صرف کسی انجان شاعرہ کے ساتھ نہیں ہوتا یہ سب صفحہ اول کے شاعر، ادیب اور لکھاریوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہم جان بوجھ کر صاحب کتاب اور ان صاحب کا نام نہیں لکھ رہے جن کو کتاب ہدیہ کی گئی، کہیں صاحب کتاب کی دل آزاری نہ ہو۔ گزارش فقط اتنی ہے کہ خدا را کتاب کی حرمت کا پاس کیجئے۔ کتاب اگر پڑھ لی ہے تو وہ ہرگز ردی کا ٹکڑا نہیں بن جاتا۔ اگر آپ کے پاس کتاب کی جگہ نہیں ہے تو آپ کتاب کسی اہل دوست کو دے سکتے ہیں۔ اس دنیا میں کئی ہم جیسے مل جائیں گے جو کتاب خریدنے کی سکت تو نہیں رکھتے مگر وہ کتاب کے احترام سے واقف ہیں۔

کتاب علم ہے، کتاب تفریح ہے، کتاب سفرنامہ ہے، کتاب تاریخ ہے، کتاب دوست ہے، کتاب محبوب کی ملاقات ہے، کتاب ایک جہان ہے۔ کتاب کی قدر کیجئے۔ ادب کی قدر کیجئے۔ یہ کسی کے کلیجے کا خون بھی ہو سکتا ہے جس کا نتیجہ کتاب ہوتی ہے۔

سید تنزیل اشفاق

سید تنزیل اشفاق، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے فارغ التحصیل، سافٹ ویئر انجینیر ہیں۔ اردو، اسلامی، سماجی ادب پڑھنا اور اپنے محسوسات کو صفحہ قرطاس پہ منتقل کرنا پسند کرتے ہیں۔