1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید تنزیل اشفاق/
  4. احمد پور ایسٹ تا لاہور

احمد پور ایسٹ تا لاہور

اللہ کریم نے حضرت انسان کو مخلوقاتِ ارضی و سماوی سے بلند مرتبہ عطاء کیا ہے۔ اور ہر خصوصیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ لیکن حضرت انسان پر منحصر ہے کہ وہ کس خصوصیت کو کس مقصد کے لئے استعمال کرتا ہے۔ انسانی خصوصیات نیکی اور بدی دونوں کے لئے استعمال ہو سکتی ہیں، فیصلہ کلی طور پر انسان کا ہے۔ اللہ کریم کا ارشاد ہے کہ ہم نے راستے کی ہدایت کر دی ہے، اب چاہے تو شکر کرو یا کفر کرو۔ اگر تو انسان اس راستے پر چلے تو یہ چلنا ہی اسکا شکر ہوگا اور اس راستے پر چلنے سے انکار ہی کفر ہوگا۔ اگر آپ قرآن کے اسلوب کو دیکھیں تو یہ جگہ جگہ انسان کو نیکی کی طرف مائل کرنے کا مشورہ، حکم اور تنبیہ کرتا ہے تاکہ حضرت انسان کا بھلا ہو۔ اگر انسان ہی اپنا بھلا نہ کرنا چاہے تو کیا کیا جا سکتا ہے۔

وجود انسانی میں جہاں اچھائیاں موجود ہیں وہیں کچھ نقائص بھی موجود ہیں۔ ان ہی نقائص میں لالچ بھی ایک مقام رکھتا ہے۔ لالچ اتنی بری شے ہے کہ اگر انسان اس کا شکار ہو جائے تو انسان کہیں کا نہیں رہتا اور بعض اوقات تو اسے اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑ جاتا ہے۔ اس کی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ حالیہ دنوں میں احمد پور ایسٹ کا واقعہ آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔ جن دنوں یہ حادثہ ہوا اس کے کچھ ہی دن بعد عید الفطر تھی۔ جن گھروں میں خوشیوں کا نزول ہونا تھا وہاں ماتم برپا تھا۔ مختلف تجزیہ نگاروں کی اپنی اپنی آراء ہیں، تمام کے اپنے اپنے ذمہ دار ہیں۔ معروف صحافی رئوف کلاسرا فرماتے ہیں کہ ان علاقوں میں غربت ہی بہت ہے، وہاں ترقیاتی کام نہیں ہوئے، لوگ بھوکے ہیں، پٹرول نہ لوٹیں تو کیا کریں۔ ہمیں کلاسرا صاحب کی رائے کا احترام ہے، یقینا جنوبی پنجاب میں ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر ہیں، جنوبی پنجاب کے ساتھ ہر دور میں ذیادتی روا رکھی گئی مگر کیا آپ اس کو جسٹیفائی کر سکتے ہیں؟ اگر بھوک ہو تو بندہ ڈاکے مارے، اپنی جان کو داو پر لگائے؟

سیانے کہتے ہیں کہ پیٹ کی بھوک مٹ جاتی ہے مگر آنکھ کی بھوک نہیں مٹتی۔ اس لئے کہ کھانا پیٹ میں جائے تو پیٹ بھر جاتا ہے، آنکھ کیسے بھرے گی، جنتی وسعت آنکھ کی ہے آنکھ کا لالچ بھی اس قدر وسیع ہے۔ احمد پور کے رہنے والوں کو انکے اذہان نے روکا ہوگا، انکے قلوب نے متنبہ کیا ہوگا کہ مت پٹرول کے پاس جاو مگر آنکھ کا لالچ آڑے آگیا ہوگا۔ پورا ایک گھنٹا یہ لوٹ مار کا بازار گرم رہا تب تک کچھ نہ ہوا، مگر ایک گھنٹا بعد کسی بندے نے سکریٹ سلگھائی اور 200 افراد جل کر لقمہ اجل بن گئے۔ مرنے والوں کی گنتی دن بہ دن بڑھ رہی ہے۔ اموات کی کئی اقسام ہیں مگر جل کر مرنا، الامان، الحفیط۔ سوچ کر ہی بدن کانپ جاتا ہے۔ اب بندہ اس بندہِ خدا سے پوچھے جس نے سگریٹ سلگھایا کہ اس نے ایسا کیوں کیا؟ انجانے میں، لالچ میں یا انتقام میں۔ ایک بندے کی خطاء کا خمیازہ کتنے بندوں نے بھگتا۔۔

اب دوسرا منظر لاہور کا دیکھئے، ایک مصروف شاہراہ پر ایک معروف مشروب کمپنی کی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوتا ہے، مشروب کی کچھ بوتلیں گاڑی سے باہر گرجاتی ہیں، لوگوں کا تانتا بن جاتا ہے، کسی کو ایک بوتل ملی لے اڑا، کسی کو دو ملیں، کسی کو ایک کارٹن، کسی کو دو کارٹن۔ الغرض ہر کسی نے حسب توفیق مالِ غنیمت لوٹا۔ اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ ہر لوٹنے والا دوسرے کو بہ خوشی بتا رہا تھا کہ میں نے اتنی لوٹیں ہیں۔ ان لوٹنے والوں کی عمریں 10 سال سے لے کر 50 سال کے درمیان تھی۔ اب آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائے کہ کیا لوٹنے والے لاہور کے رہنے والے بھی اتنےغریب تھے کہ جنکے پاس 85 روپے کی بوتل خریدنے کے پیسے نہ تھے؟ یا لاہور میں بھی ترقیاتی کام نہیں ہوئے تھے؟ ہم نے بہ حیثیت قوم احمد پور ایسٹ کے سانحے سے کیا سیکھا؟

کتنوں نے احمد پور ایسٹ کے جلے ہوئے زخمیوں سے عبرت سیکھی۔ کبھی آپ ان زخمیوں کے تاثرات بھی اگر قوم تک پہنچا دیتے تو احسان ہوتا، اور پوچھتے اب ایسا کرو گے؟ احمد پور ایسٹ سے لاہور تک مالِ غنیمت لوٹنے والی عوام کس منہ سے نواز شریف سے حساب طلب کر رہی ہے، یہ کس منہ سے سرے محل کا حساب طلب کر رہی ہے، یہ کس منہ سے نعرہ لگا رہی ہے کہ نواز شریف چور ہے؟ شاید یہی سبب ہے کہ آج تک کوئی حقیقی احتساب نہیں ہوا۔ کہتے سب ہیں کہ احتساب ہو، مگر دوسروں کا، جب اپنے احتساب کی باری آتی ہے تو چیخیں مریخ تک سنائی دیتی ہیں۔

آیئے، نواز شریف کا احتساب کرنے سے پہلے اپنا احتساب خود کرلیں، اگر آپکا ضمیر مردہ نہیں اور آپکا ضمیر آپکو بری کر دیتا ہے، تب آپ نعرہ لگایئے کہ نواز شریف کا احتساب کرو۔ ورنہ فضول میں مغز ماری کر کے اپنا اور کسی کا وقت ضائع نہ کیجئے۔

سید تنزیل اشفاق

سید تنزیل اشفاق، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے فارغ التحصیل، سافٹ ویئر انجینیر ہیں۔ اردو، اسلامی، سماجی ادب پڑھنا اور اپنے محسوسات کو صفحہ قرطاس پہ منتقل کرنا پسند کرتے ہیں۔