1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید تنزیل اشفاق/
  4. ہم اور ہمارا بخار

ہم اور ہمارا بخار

ہم انسان اللہ کریم کی وہ مخلوق ہیں جو صاحب شعور ہیں، سوچتے ہیں، مشکل کو حل کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ یہ خصوصیات باقی کے جانداروں میں بہت محدود ہیں۔ انسان پہ مشکل کی کوئی قسم ہو بھوک، افلاس جانی یا مالی تنگی حل کا رستہ نکل ہی آتا ہے اور یوں زندگی اپنی ڈگر پہ رواں دواں رہتی ہے۔ زندگی کے کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں جو وقتی طور پہ انسانی بساط سے بالا بالا ہو جاتے ہیں، ایسے میں حالات کا احترام اور ممکنہ حد تک بچاو ہی واحد حل ہوا کرتا ہے۔

اس نیلے سیارے کے انسان اس سال کے آغاز سے ایک وبائی مرض کے شکار ہیں، ایک ایسا مرض جس کا علاج تا حال دریافت ہونا ہے۔ اس وباء کی مہلک ترین قسم کا شکار پہلے تو چین کی عوام ہوئی اور پھر چل سو چل ہے۔ شاید اس دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں بچا جہاں یہ وباء نہ پہنچی ہو۔ کیا ترقی پزیر ممالک اور غریب ممالک۔ اس وقت پاکستان میں مریضوں کی تعداد چین کی تعداد سے تجاوز کرچکی ہے۔

پاکستان میں یہ وباء فروری میں حملہ آور ہوئی لیکن تب سے لے کر اب تک نہ ریاست اور نہ ہی عوام نے اس کو سنجیدگی سے لیا۔ یعنی پہلے یہ سوچا گیا کہ یہ وباء چین میں ہے پاکستان میں تو نہیں، پاکستان آئی تو کہا، بلوچستان میں ہے پنجاب میں تو نہیں، پنجاب میں آئی تو ہمارا شہر تو بچا ہوا ہے، شہر آئی تو میرے محلے میں کوئی مریض نہیں ہے۔ سمجھ تب آئی جب محلے سے ہوتا ہوا مرض گھر کی دھلیز پہ آگیا۔

لیکن ہماری عوام نے پھر بھی اسے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ پھر بھی یہی کہا کہ میں تو بچا ہوا ہوں نہ، یہ کرونا شرونا کچھ نہیں، یہ ایک سازش ہے۔ جیسے ہی لاک ڈاون کچھ نرم ہوا عید کی خریداری یوں کی جیسے صدیوں کی بھوک جو آنکھوں میں در آئی تھی مٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ بازاروں میں اتنا رش جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ وہ جن کے پاس لاک ڈاون میں کھانے کے پیسے نہ تھے خدا جانے شاپنگ کے لئے کون سا خزانہ ہاتھ لگا کہ خریداری کے لئے بازار مخلوق خدا سے بھر گئے۔۔۔

ہمیں اس وباء نے گزشتہ چار ماہ سے گھر سے کام پہ مجبور کیا ہوا ہے۔ گھر سے باہر جانا بہت محدود ہے۔ عید کے ایک یا دو دن بعد سے "ہرڈ امیونٹی" کا شکار ہوا۔ اپنی زندگی میں اس سے پہلے کئی مرتبہ بخار کا شکار ہوا جو ایک سے تین دن کے بعد ٹھیک ہو جاتا۔ لیکن اس مرتبہ عید کے اگلے دن بخار نے آلیا۔ جو پورے دو ہفتے حشر سامانی بپا کرتا رہا۔ بخار کے ابتدائی دو دن کوئی دوا نہیں لی کہ خود ہی ٹھیک ہو جائے گا۔ اگلے دو دن پیناڈول استعمال ہوئی، آرام وقتی ہوا لیکن بخار قائم و دائم رہا۔ اس سے اگلے دو دن مقامی ڈاکٹر سے رجوع کیا گیا، پہلی خوراک سے آفاقہ ہوا، دو دن خوراک استعمال کی، لیکن اس کے بعد بخار دوبارہ دھمالیں ڈالتا آگیا۔

اگلے دو دن دوبارہ دوائی سے ناغہ۔ اس وقت تک کمزاری اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ جب کام اپنے بس سے باہر ہوا تو جنرل ہسپتال کے ڈاکٹر کو گھر بلوایا، تین دن ان سے دوائی لی۔ اس مرتبہ جسمانی کمزاری کچھ بہتر ہوئی لیکن بخار نے قسم کھائی تھی کہ ابھی جان نہیں چھوڑنی۔

اتنا سیانا بخار کہ ڈاکٹر کے آنے سے پہلے جوبن پہ، دوران چیک اپ کوئی بخار نہیں، ڈاکٹر کے جانے پہ پھر بخار جوں کا توں۔ دوران بخار کئی اقسام کے مشورے یہ قہوہ پیجئے، وہ دوائی استعمال کریں۔ الغرض جتنے منہ اتنے مشورے۔ بہتر یہی ہے مستند ڈاکٹر سے علاج اور مشورہ لیا جائے۔

حالت اس وقت یہ ہے کہ بخار تو مستقل ختم ہو چکا ہے لیکن جسمانی کمزوری اتنی ہو چکی ہے کہ جاتے جاتے جائے گی۔ اس دوران میرے گھر والوں نے میرا پورا ساتھ دیا۔ میری امی، ابو، بیوی، بھائی سب نے۔ جب بھی نقاہت کے مارے آہ نکلتی اپنی ماں اور بیوی کو موجود پاتا جو کبھی پاوں دابتے، کبھی سر کبھی بازو۔ سب نے حق ادا کیا۔ مولا کریم ان سب کو اپنی امان میں رکھے اور جزائے خیر عطا فرمائے۔

دوستوں میں کسی کو آگاہ نہیں کیا، لیکن جن کو دل سے راہ تھی وہ آگاہ ہوئے میرے لئے ان سب نے دعائیں کی، میرے لئے انہوں نے صدقہ خیرات کیا۔ میں ان سب دوستوں کے لئے دعا گو ہوں کہ مولا کریم ان سب کو ان کاوشوں کا بہترین اجر عطا فرمائیں اور اس وباء سے محفوظ رکھے۔

آخر میں سب سے التجاء کہ یہ وباء مزاق ہرگز نہیں، اسے مزاق نہ سمجھیں ورنہ یہ آپ کو مزاق میں اڑا دے گی۔ اللہ کریم آپ سب کا ہامی و ناصر ہو۔

سید تنزیل اشفاق

سید تنزیل اشفاق، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے فارغ التحصیل، سافٹ ویئر انجینیر ہیں۔ اردو، اسلامی، سماجی ادب پڑھنا اور اپنے محسوسات کو صفحہ قرطاس پہ منتقل کرنا پسند کرتے ہیں۔