1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید تنزیل اشفاق/
  4. ہم سٹیج اور کردار

ہم سٹیج اور کردار

شیکسپئر نے کہا تھا کہ یہ دنیا ایک سٹیج ہے اور ہم میں سے ہر کوئی ایک کردار ہے جسے وہ نبہا رہا ہے۔ ہر فرد اپنا کردار ادا کرنے کے بعد سٹیج سے غائب ہو جاتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ کہ یہ کردار جو ادا کیا جا رہا ہے وہ منفی ہے یا مثبت؟ اور کیا یہ کردار نبہانے کے لئے کیا اسے کسی نے مجبور کیا یا پھر وہ اپنا کردار ادا کرنے میں خود مختار ہے؟

دنیا میں اس کردار کا آغاز بچپنے سے ہوتا ہے، ہر ایک کا بچپنا الگ کردار کی ادائگی کا حامل ہوتا ہے۔ کسی کا بچپنا شرارتی اور کسی کا بیبا، کسی کی زبان توتلی تو کسی کی شستہ، کوئی 7 ماہ میں چلنا شروع کرے تو کوئی 1 سال بعد۔

کچھ افراد کا کردار بچپنے کی حدود میں ہی اختتام پزیر ہو جاتا ہے، شاید وہ اس کردار کو نبہاتے ہی اتنا خوب ہیں کہ مزید کی ضرورت نہ ہو۔ باقی کے افراد کردار کا پہلا فیز گزارنے کے بعد جوانی کی حدود میں داخل ہوتے ہیں۔

کردار کے اس فیز میں جوانی، رعنائی، رنگینی، سر، سنگیت، سرمستی اپنے جوبن پہ ہوتی ہے۔ ہر کردار کا شاید یہی نقطہ عروج ہوتا ہے جہاں ہر کردار کو اپنے کردار کا بہترین ایکٹ دینا ہوتا ہے۔

جوانی کے بعد سٹیج پہ کردار کا آخری دور شروع ہوتا ہے یعنی بڑھاپا۔ جو افراد جوانی میں اپنا بہترین ایکٹ نہ دے پائیں، اب آخری چانس ہوتا ہے۔ کردار کے اس فیز میں گو جزبے ڈھلان پہ ہوتے ہیں مگر تجربہ کی بنیاد پہ افراد اپنے ایکٹ کو یادگار بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اور جیسے ہی ایکٹ ڈیلیور ہوتا ہے سٹیج سے رخصتی کا وقت آجاتا ہے۔ پھر نئے کردار، نئے لوگ اور پھر وہی کہانی۔

کردار کے تین فیز منفی تھے یا مثبت، اس بات میں انسان کو کسی حد تک اختیار دیا گیا ہے کہ وہ منفی کردار نبہائے یا مثبت۔ کردار کے اعمال اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ کردار منفی رہا یا مثبت۔ یوں تو ہر کردار ہی مثبت اور منفی اعمال کا ملغوبہ ہوتا ہے، فیصلہ اس بات پہ ہوتا ہے کسی بھی کردار میں منفی عمل کتنے فیصد اور مثبت کتنے فیصد۔

بعض اوقات مثبت کردار بھی یوں ادا کیا جاتا ہے کہ شدید مایوسی ہوتی ہے اور بعض اوقات منفی کردار کا ایکٹ اتنا جاندار ہوتا ہے کہ دیکھنے والے تالیاں بجانے پہ مجبور ہو جاتے ہیں۔

آپ کو شاید لگے کہ سٹیج کے اس کردار میں شاید ایک ہی کردار نبہانا پڑتا ہے، شاید نہیں۔ آپ خود غور کیجئے، بچپنے میں جتنے دوست یہ کردار بناتا ہے ہر ایک کے لئے الگ چہرہ رکھتا ہے یوں زندگی کے اس فیز میں ایک ہی وقت وہ کتنے کردار نبہا رہا ہوتا ہے۔

جوانی کے فیز میں یہ دائرہ مزید وسیع ہوجاتا ہے۔ ہر شعبہ جس کا کردار نبہایا جارہا ہوتا ہے اس شعبے، اس کردار کے عزیز و اقارب، دوست احباب، اتفاقیہ ملاقاتیوں، دشمنوں سب کے لئے کردار کا ایک الگ چہرہ ہوتا ہے۔ ہر چہرہ فلٹرڈ ڈیٹا مہیا کرتا ہے۔ یوں ایک کردار ہی نجانے کتنے کرداروں کا حامل ہوتا ہے جسے وہ ادا کر رہا ہوتا ہے۔

صرف وہ کردار ہی جانتا ہے یا اس کردار کا خالق جانتا ہے کہ اس کردار کا اصل کیا ہے۔

ہر کردار کا ایکٹ اس بات کا متقاضی ہوتا ہی کہ کردار کے اختتام پہ کردار کی ادائیگی کو جانچا جائے، اور اچھا ایکٹ نبہانے والوں کو اعزاز سے نوازا جائے کہ یہ دستورِ دنیا بھی ہے۔ یقیناََ ایک دن جو طے ہے، اس دن ہر کردار کو اس کی ادائیگی کا صلہ ملے گا۔ کسی کو تمغہ برائے حسنِ کارکردگی ملے گا تو کسی کو کردار کی ادائیگی پہ انعام ملے گا۔

تو اپنے کردار کو اس انداز سے نبہایئے کہ جب فیصلے کی باری آئے تو آپ کا نام انعام پانے والوں کی فہرست میں ہو۔

اللہ کریم آپ کو آسانیاں عطاء فرمائیں اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائیں۔

سید تنزیل اشفاق

سید تنزیل اشفاق، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے فارغ التحصیل، سافٹ ویئر انجینیر ہیں۔ اردو، اسلامی، سماجی ادب پڑھنا اور اپنے محسوسات کو صفحہ قرطاس پہ منتقل کرنا پسند کرتے ہیں۔