1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید تنزیل اشفاق/
  4. خان صاحب، انکے مصاحبین اور پارٹی الیکشن

خان صاحب، انکے مصاحبین اور پارٹی الیکشن

بطور پاکستانی شہری میں آئین پاکستان کا وفادار ہوں۔ جو کچھ آئین پاکستان نے اختیارات کی وضاحت کی ہے میں بھی اسی کو درست سمجھتا ہوں۔ اگر غیر جمہوری قوتیں اقتدار میں آتی ہیں تو اس میں کافی حد تک کردار بہرطور خودساختہ جمہوری لوگوں کا بھی ہے اور ان سیاسی لوگوں کا جو ابن الوقت اور نیم سیاسی ہیں۔ اس کی کئی مثالیں آپ کو اپنے ارد گرد اور پاکستانی معاشرے میں مل جائیں گی۔ مطمع نظر مگر سب کا ایک ہی ہے اقتدار کا حصول۔ خالص سیاسی لوگوں کا طریق الیکشن کے زریعہ اس کا حصول اور مفاد پرستوں کا طریق شارٹ کٹ ہے۔

اگر آپ پاکستانی سیاست کے طالب علم ہیں تو آپ اس بات سے واقف ہوں گے کہ موجودہ پاکستانی سیاست چند سیاسی گھرانوں پر مشتمل ہے۔ اور ہر ایک گھرانے میں اقتدار سے جونکوں کی مانند چمٹے رہنے کی جستجو پیہم ہے۔ اس کے لئے چاہے انہیں کچھ بھی کرنا پڑے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مجوزہ اصولوں کے مطابق ہر پاکستانی سیاسی پارٹی کو شفاف پارٹی الیکشن منعقد کروانا ضروری ہیں۔ مگر حقیقی معنوں میں کوئی بھی پاکستانی سیاسی جماعت پارٹی الیکشن نہیں کرواتی۔ پیپلز پارٹی میں کوئی بلاول بھٹو کے مدمقابل الیکشن لڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا، نہ ہی پاکستان مسلم لیگ کا کوئی ممبر نواز شریف کے خلاف پارٹی الیکشن لڑنے کا سوچ سکتا ہے۔

پاکستانی عوام کو بہت سی توقعات پاکستان تحریک انصاف اور اسکے روحِ رواں جناب عمران خان سے تھیں۔ وہ اس بات کے علمبردار تھے کہ ہماری پارٹی موروثی سیاست کے خلاف ہیں۔ اور درست معنوں میں ایک سیاسی پارٹی ہے۔ ابھی کچھ دنوں پہلے تحریک انصاف کے پارٹی الیکشن منعقد ہوئے۔ وہ بھی اس انداز سے ہوئے کہ جن کا نہ ہونا ہی بہتر تھا۔ یہ بات عیاں ہے کہ تحریک انصاف کے اس الیکشن میں دو پینل بنائے گئے۔ ایک کو عمران خان لیڈ کر رہے تھے اور دوسرے پینل کو نیک محمد خان لیڈ کر رہے تھے۔ اور الیکشن کا اصول یہ طے پایا کہ آپ کسی انفرادی فرد کو ووٹ نہیں دے سکتے، بلکہ پورے پینل کو ہی ووٹ دیں گے۔ اب کون سرپھرا بندا پارٹی میں رہتے ہوئے بانی تحریک انصاف کے خلاف ووٹ دے گا؟ سو وہی ہوا اور عمران خان پینل جیت گیا۔ یہ الگ بات کہ اگر آپ پولنگ بذریعہ ایس ایم ایس کروائیں تب بھی ووٹنگ تناسب بہت کم ہے۔ میرے نزدیک اس تمام بکھیڑے کا حل یہ ہونا چاہئے کہ عمران خان کو تاحیات چیرمین بنا دیا جائے اور یہ بھی لکھ دیا جائے کہ ان کے خلاف کوئی امیدوار نہیں کھڑا ہو سکتا۔ دوسری یہ کہ یہ انکا صوابدیدی اختیار ہے کہ وہ جس کو چاہیں چُن لیں۔ تا کہ نہ الیکشن کا بکھیڑا ہو، نہ گنتی اور نہ ہی ووٹوں کی تصدیق ممکن ہو۔

اگر عمران خان اور تحریک انصاف اتنے ہی اصول پسند ہیں تو کیا وہ یہ بتانا پسند کریں گے کہ جسٹس وجیہ الدین کو کیا اعتراض تھا اور جن احباب کو انھوں نے قصور وار ٹھرایا تھا انکا کیا بنا؟ کیا انکو سزا دی گئی؟ یا ان کو عہدوں سے نوازا گیا۔

جس انداز سے خان صاحب لوٹوں کی کھیپ اکٹھی کر رہے ہیں اور جس کے لئے انہوں نے بندے مقرر کیے ہوئے ہیں کہ دوسری سیاسی پارٹیوں کے بندے توڑیں کیا وہ کسی طور درست ہے؟ کیا خان صاحب یہ گارنٹی دے سکتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ ہی رہیں گے؟ جتنے بھی آزمائے ہوئے کارتوس خان صاحب اپنی بندوق میں فٹ کر رہے ہیں کیا خبر عین وقت پر یہ چلنے سے انکار کر بیٹھیں اور گیلے بارود کی مانند ٹھس ہو جائیں۔ کیا خان صاحب کو اس بات کی خبر ہے کہ تحریک انصاف کے نظریاتی کارکنان اس بارے میں کیا سوچ رہے ہیں۔ کیا خان صاحب کو اس بات کا ادراک ہے کہ موجودہ الیکشن کا ٹرن آوٹ کم ہونے کا سبب کیا ہے؟ میرا ایک اور مشورہ خان صاحب کے لئے ہے کہ اگر خان صاحب نے یہی سیاسی کچرہ اکٹھا کرنا ہے تو زرداری صاحب سے مذاکرات کر کے اگلے الیکشن کے لئے بندے ادھار لے لیں، یا چیئرمین شپ ادھار لے لیں۔ یوں جوڑ توڑ کی ضرورت بھی پیش نہیں آئے گی۔

تو کیا اب ہم یہ سمجھیں کہ نظریاتی سیاست کی پاکستان میں کوئی جگہ نہیں؟ کیا نسل در نسل نظریاتی سیاست کرنے والا بے وقوف ہے؟ آپ کس کلچر کو فروغ دے رہے ہیں۔ آپ نے نواز شریف کو مطعون کیا کہ انھوں نے چھانگا مانگا کی سیاست کی، کیا آپ بھی اسی ڈگر پہ نہیں چل رہے؟ میرا یقین ہے کہ اگر خان صاحب صرف اپنے نظریاتی امیدواروں کو الیکشن میں اتارتے اور ٹکٹ میرٹ پر دیتے تو تحریک انصاف کی نشستوں میں خاطر خواہ اضافہ ہو جاتا اور انکو اگلے الیکشن میں کسی ناکارہ گھوڑے کی ضرورت نہ پڑتی۔

کیا میں یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب نہیں کہ ہارون الرشید جیسے صحافی ورکر نے کیوں تحریک انصاف کو چھوڑا؟ کیوں آج بھی وہ تحریک انصاف کے لئے کڑھتے ہیں، اس سبب وہ متعدد مرتبہ گالیاں کھا چکے ہیں۔ وجہ یہی ہے کہ عمران خان مردم شناس نہیں، اور نہ ہی خان صاحب کسی بندے کے پتر کی بات در خو اعتناء سمجھتے ہیں۔ میری دلی ہمدردیاں خان صاحب اور تمام سیاسی پارٹیوں کے لئے ہیں جو پاکستان کا بھلا کرنا چاہتی ہیں۔


سید تنزیل اشفاق

سید تنزیل اشفاق، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے فارغ التحصیل، سافٹ ویئر انجینیر ہیں۔ اردو، اسلامی، سماجی ادب پڑھنا اور اپنے محسوسات کو صفحہ قرطاس پہ منتقل کرنا پسند کرتے ہیں۔