1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید تنزیل اشفاق/
  4. سیاسی تحریر

سیاسی تحریر

کافی عرصے سے مجھے دوست احباب ورغلا رہے تھے کہ سیاست پر لکھوں۔ میں اکثر دوستوں کو غچا دے جاتا اور اپنا دامن بچا جاتا۔ لیکن اب لگتا ہے کہ شاید مزید ایسا کرنا ممکن نہ رہے۔ اس تحرّک کا سبب میرے ایک عزیز دوست کی پوسٹ ہے کہ جس کا احترام ہمیشہ مجھے ملحوظ خاطر رہتا ہے۔ جس کا تعلق میرے سکول کے زمانے کا ہے۔ جو ایک بلا کا ذہین اور صاحبِ معلومات بندہ ہے۔ تحقیق جسکا اولین جہد اور خطرناک حد تک سچا بندہ۔ انھیں اوصاف کی وجہ سے ڈرتا تھا کہ ان جیسے دوستوں سے محروم نہ ہو جاوں۔ لیکن اب دل کو ڈھارس بندھی ہے کہ ایسا نہ ہوگا۔

چونکہ ہم بہ حیثیت انسان خطا کے پتلے ہیں اور خامیوں کے مجموعے ہیں تو سیاسی دوست احباب عموماََ ان ہی خامیوں کے لے کر اپنے مخالفین کو خوب لتاڑتے ہیں۔ جب کہ اچھائی کی طرف کوئی نہیں دیکھتا۔یہ امر میری سمجھ سے باہر ہے کہ صرف خامی ہی کیوں؟ مخالف کی اچھائی کو اجاگر کیوں نہیں کیا جاتا۔ اگر اپنی بات کروں تو میں سیاست کے میدان کا طالب علم تو نہیں اور نہ ہی اس گورکھ دھندے کا شناسا ہوں۔ گزشتہ الیکشن میں تحریک انصاف کا ووٹر تھا۔ کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ عمران خان شاید آزمایا نہیں گیا اور شاید یہ پاکستان کے حق میں بہتر ہو۔

یہ بات بھی اپنی جگہ عیاں ہے کہ عمران خان کی چار سالہ کارکردگی کچھ اچھی نہیں ۔ وہ بہت کچھ کر سکتے تھے جو انہوں نے نہیں کیا۔ بطور لیڈر ان کے پاس ایک پورا صوبہ میسر تھا جس کو وہ رول ماڈل بنا سکتے تھے مگر نہ بنا سکے۔ گو کہ ایک یا دو شعبوں میں وہ بہتری لا پائے جس کی گواہی ان کے سیاسی مخالفین بھی دیتے ہیں۔ مگر یہ کافی نہیں۔ کیا کرپشن ختم ہو گئی؟ جس کا دعویٰ کیا گیا تھا کہ 90 روز میں کرپشن ختم ہو جائے گی؟ دہشتگردی کم ضرور ہوئی مگر اس میں بھی زیادہ کردار پاکستان آرمی کا ہے۔ کیا صرف فیس بک پہ فوٹو شاپ سے تصاویر بنا کہ آپ یقین دلوا سکتے ہیں کہ سب اچھا ہے؟ شاید نہیں۔ میرے خیال میں خان صاحب کی صوبائی ٹیم ہی اس قابل نہیں ہے۔ ادارے کہاں ہیں؟ آج اگر عمران خان صاحب نہ ہوں، تو تحریک انصاف کے دامن میں کیا ہے؟ وہ نہ ہوں تو کون پوچھے گا؟ احتساب کمیشن کا سربراہ اس لئے چھوڑ جاتا ہے کہ احتساب کمشن کے قانون میں جان نہیں، جن افراد کو یہ کمیشن پکڑتا ہے ان کو بغیر احتساب چھوڑ دیا جاتا ہے اور دوبارہ وہ افراد اپنے عہدوں پر بحال ہو جاتے ہیں۔ اس صورتحال میں کسی نہ کسی کو تو مستعفی ہونا چاہئے، کسی کو تو سزا ملنی چاہئے۔

اب آتے ہیں مرکز کی طرف، خان صاحب کی مرکز میں بھی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ خان صاحب نے جتنا وقت 4 حلقوں پہ شور کرنے میں لگایا اگر وہ اس کا آدھا وقت قانون سازی اور ادارہ سازی میں لگاتے تو اچھا ہوتا۔ کم از کم اگلے الیکشن میں تو 4 حلقوں والی کھچ کھچ نہ ہوتی۔ مگر مجھے یہ لگتا ہے کہ خان صاحب اگلے الیکشن میں بھی دھرنے ہی دینے کا پروگرام بنائے بیٹھے ہیں۔ خان صاحب اپنی شیڈو کیبینٹ بناتے، جس کا رواج یورپ میں تو ہے مگر ہمارے ہاں نہیں۔ یہ کام کرنے سے حکومت کو بھی ٹف ٹائم ملتا اور پاکستان کا بھی بھلا ہوتا۔ اگر یہی حال رہا تو عجب نہیں کہ اگر خان صاحب کی حکومت مرکز میں بن بھی گئی تو حاصل وصول کچھ نہیں ہونا۔ کیونکہ سارے کام انہوں نے خود تھوڑا ہی کرنے ہیں۔ الیکشن کمیشن وہی ہے، جس کی کارکردگی پہلے سے ہم جانتے ہیں۔ خیر کرنے کو بہت کچھ تھا جو نہیں کیا گیا۔

اب باری ہے میاں صاحب کی۔ میاں صاحب نے بھی خان صاحب کو ہوا دینے میں پورا کردار ادا کیا۔ اگر وہ پہلے ہی چار حلقے کھلوا دیتے تو چار سال قوم سکھ کا سانس لے پاتی۔ دھرنوں اور ریلیوں سے قوم کا قیمتی وقت اور سرمایا بچتا۔ پاناما کیس میں جتنا میاں صاحب نے خود کو داغدار کر لیا ہے شاید یہ انہیں اگلے الیکشن میں بھی ستائے گا۔ اور اس کا فائدہ شاید کوئی اور اٹھائے۔ میاں صاحب نے بھی ادارہ سازی اور قانون سازی میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ شاید یہی انکو سوٹ کرتی ہے۔ خان صاحب تو کیا ان سے انکی پارٹی کے اپنے نمائندے بھی نالاں ہیں۔ جتنے تجربہ کار میاں صاحب ہو چکے ہیں وہ ان سب سے بچ کے بہت کچھ کر سکتے تھے جس سے پاکستان کا بھلا ہوتا۔

آیئے خوبیوں کو دیکھتے ہیں اور ناحق تنقید سے بچتے ہیں۔ پاکستان کا بھلا سوچتے ہیں۔ دودھوں دھلا کوئی نہیں، اس حمام میں سب ننگے اور گنہگار ہیں۔ خامیوں کو ایک طرف رکھ کے آیئے عمران خان کے شوکت خانم ہسپتال ، نمل یونیورسٹی کو سراہیں۔ اسی طرح میاں صاحب کی خامیوں کو ایک طرف رکھ کر انکے ترقیاتی منصوبوں کو سراہیں۔ انہوں نے بھی اس ملک کے لئے بہت کچھ کیا ہے۔ وہ بھی پاکستانی ہیں۔ بے جا تنقید انسان کو بہت دور لے جاتی ہے۔ آیئے ایک دوسرے کو سراہیں، اور اختلاف کو اختلاف کی حد تک رہنے دیں اور اسے ذاتی رنجش بنانے سے گریز کریں۔

سید تنزیل اشفاق

سید تنزیل اشفاق، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے فارغ التحصیل، سافٹ ویئر انجینیر ہیں۔ اردو، اسلامی، سماجی ادب پڑھنا اور اپنے محسوسات کو صفحہ قرطاس پہ منتقل کرنا پسند کرتے ہیں۔