1. ہوم/
  2. اسلامک/
  3. سید تنزیل اشفاق/
  4. صدیقۃ الکبری

صدیقۃ الکبری

اللہ کریم نے آغازِ عالمِ ممکنات کرنا چاہا تو ارشاد فرمایا، لولاک لما خلقت الفلاک، کہ میرا حبیب محمد ﷺ اگر آپ کی تخلیق مقصود نہ ہوتی میں کائنات خلق نہ کرتا۔ یعنی اس عالمِ ممکنات میں اگر کسی چیز کا وجود ہے تو وہ محتاج و ممنونِ جناب سرور کونین ہے۔ یہ احسان ہے اللہ اور جناب مصطفی ﷺ کا جن کی بدولت ہم زندہ ہے، سانس لے رہے ہیں۔ علم، شعور اور آگہی سے مزین، اللہ کریم کی کائنات کو علم کی بدولت مسخر کر رہے ہیں۔ اب عالمِ ممکنات میں جو کوئی بھی ہے وہ مفضول ہے اور جناب مصطفی ﷺ افضل ہیں۔ اگر کسی کو کوئی فضیلت یا مرتبہ حاصل ہے تو وہ اس تعلق اور نسبت کی بدولت ہے جو آقا سرکار ﷺ سے ہے۔ جنتا مضبوط تعلق اتنی ہی اعلی فضیلت۔

سرکار محمد مصطفی ﷺ سے دو طرح کے رشتے اور تعلق ہوسکتے ہیں۔ ایک خون کے رشتے اور دوسرے روحانی یا معاشرتی رشتے۔ یہ قانونِ قدرت بھی ہے اور مشاہدہ بھی کہ روحانی اور معاشرتی تعلق ٹوٹ سکتے ہیں مگر خون کے رشتے نہیں ٹوٹ سکتے۔ ہمارا دوست آج ہے کل شاید نہ ہو، اس لئے کہ خون کا رشتہ نہیں۔ لیکن جب کبھی آپ پہ مشکل وقت آئے گا تو خون جوش ضرور مارے گا بھلے کتنی ہی رنجش کیوں نہ ہو، اس لئے کہ خون کے رشتے ٹوٹ نہیں سکتے۔

ایسے ہی ہمارے آقا سرکار ﷺ کے رشتے بھی تھے۔ تقابل کسی کا کسی سے نہیں۔ لیکن خون کے رشتے افضل اور باقی کے رشتے مفضول ہیں۔ ہماری جانیں قربان سرکار مصطفی ﷺ کے جان نثار صحابہ کرام پہ، وہ ہمارے سروں کے تاج اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں۔ ان کا اپنا مقام ہے، لیکن ہم انکے مقام کا تقابل خون کے رشتوں سے ہرگز ہرگز نہیں کرسکتے۔ خون کے رشتے بہر طور اعلی، افضل اور سرکار ﷺ سے ذیادہ قربت رکھتے ہیں۔

ہمارے ملک پاکستان میں مذہب کو پیٹ، سیاست اور دیگر مشاغل کے لئے خوب استعمال کیا گیا۔ پلتے پلتے مذہبی نفرت کا یہ پودا تن آور درخت بن گیا۔ یہاں تک کہا گیا کہ ان کا جنازہ نہ پڑھو، جو پڑھے ان کا نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔ یہ فتوے ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان کے بارے ہیں۔ اور ان کا شکار کم پڑھے لکھے عوام ہوتے ہیں۔ عوام کا اتنا قصور نہیں جتنا اُس مولوی کا ہے جس نے اسلام کو اپنے مضموم مقاصد کے لئے استعمال کیا۔

تاریخ اسلام کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں پتہ چلے گا تاریخ میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ ایک تاریخ درباری تھی اور دوسری غیر درباری۔ اس تاریخ کے مورخوں نے زمین کو آسمان بنا دیا اور آسمان کو زمین، اپنے چند ٹکے کھرے کرنے کے لئے۔ لیکن دوسری طرف ایسے مورخ، محدث بھی تھے جنہوں نے اپنے جانوں کے نذرانے دیئے لیکن حق بات سے نہیں ہٹے۔

ایسے ہی درباری مورخوں نے نبی مقدس ﷺ کے خون کے رشتوں کے بارے نہایت رقیق حملے کئے۔ چاہے یہ انکے ایمان کے بارے ہوں یا ان کی فضائل کے بارے۔ آپ سوچئے آقا سرکار کے والدین، چچا اور دیگر رشتے داروں کے ایمان کے بارے گفتگو کی گئی۔ انکے فضائل کو اپنے قلم کی سیاہی سے سیاہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن آسمان کا تھوکا اپنے ہی منہ پہ آکے گرتا ہے۔ وہ خون کے درخشندہ کواکب آج بھی چمک رہے ہیں اور اپنی حقانیت منوا رہے ہیں۔

مورخ خود بے ایمان تھا جسے آقا سرکار کے رشتے داروں کا ایمان نظر نہیں آیا، وہ مورخ خود بونے تھے جنہیں آقا سرکار ﷺ کے عزیزوں کا قد چھوٹا نظر آیا۔ وہ مورخ اور مولوی خود غاصب تھے جنہیں رسول مقدس کے عزیزوں کا حق نظر نہیں آیا۔

آج کے کچھ بے ضمیر، بدقماش، بکاو اور بدنسل مولوی آج بھی اسی تسلسل کے امین ہیں جو سرکار ابوطالب علیہ السلام کے ایمان کے بارے بات کرتے ہیں، جو صدیقۃ الکبری، سیدۃ النساء العالمین کے حق پہ نہ ہونے کے وعظ کرتے ہیں۔ عقل کو ہاتھ ماریں اگر خون کے رشتے معاذ اللہ ایمان سے محروم تھے، اور خون کے رشتے خطا پہ تھے اور حق پہ نہیں تھے تو اللہ کریم کی اس کائینات میں کون صاحب ایمان ہوگا، کون حق پہ ہوگا؟

ہماری التجاء ہے کہ دنیاوی ٹکوں کی خاطر اپنی عاقبت خراب نہ کیجئے۔ نبی سرکار ﷺ نے سرکار علی علیہ السلام کو کل ایمان کہا، اور کہا جہاں علی علیہ السلام ہوں گے وہاں حق ہوگا، سرکار حسنین علیہھم السلام کو جوانانِ جنت کے سردار کہا۔ جنابِ فاطمہ سلام اللہ علیہا کو صدیقۃ الکبری کہا، سیدۃ النساء العالمین کہا، اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک کہا، سیدہ کی مرضی کو اپنی مرضی کہا ان کی ناراضگی کو اپنی ناراضگی کہا، انکو اپنا حصہ کہا۔ جو مخدومہ ایسے فضائل کی حامل ہو، اسے خطا پہ کہنا سراسر ضلالت اور گمراہی کے سوا کچھ نہیں۔

ہم یہ کہتے ہیں کہ بس پاک سیدہ فاطمہ زاہرہ سلام اللہ علیہا سچی تھیں، بس وہی سچی ہیں اور بس وہی سچی رہیں گی۔ جو کوئی بھی محمد و آل محمد علیھم السلام کے خلاف آئے وہ جھوٹا بھی ہے، باطل بھی ہے اور نسلی اعتبار سے ابتر بھی ہے۔ جو بی بی سلام اللہ علیھا اللہ کریم کی جنابِ محمد ﷺ پہ عطا ہو اور جس عطا کی وجہ سے اللہ کریم اپنے حبیب کو کہے کہ اس عطاء کے شکرانے کے طور پہ نماز پڑھئے، قربانی کیجئے کہ یہ عطا خیر کثیر ہے۔ اس عطا کی وجہ سے دشمنان سرکارِ محمد ﷺ کے منہ بند ہوئے۔ یہ عطاء کبھی بھی خطاء پہ نہیں ہوسکتی۔ اس لئے کہ اگر یہ عطا خطا پہ ہو تو عدل الہی پہ حرف آئے گا۔ خطا پہ وہ لوگ ہیں جو ان کے خلاف اپنا خبثِ باطن اپنی غلیظ زبانوں پہ لاتے ہیں۔

اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں حق کا ساتھ دینے کی توفیق عطاء فرمائے اور اس پہ استقامت عطا فرمائے۔

سید تنزیل اشفاق

سید تنزیل اشفاق، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے فارغ التحصیل، سافٹ ویئر انجینیر ہیں۔ اردو، اسلامی، سماجی ادب پڑھنا اور اپنے محسوسات کو صفحہ قرطاس پہ منتقل کرنا پسند کرتے ہیں۔