1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. زاہد اکرام/
  4. پاکستان کا ’’نظام سقہ ‘‘

پاکستان کا ’’نظام سقہ ‘‘

ہمایوں (بادشاہ وقت برصغیر ہند) مانگو کیا مانگتے ہو؟
نظام سقہ ’’سرکار مجھے ایک دن کا بادشاہ بنا دو‘‘
خواہش تو بہت بڑی تھی مگر بادشاہ وقت کیلئے انکار بھی ممکن نہ تھا کیونکہ نظام نے ہمایوں کی جان جو بچائی تھی اور اپنی مَشک کے سہارے دریا عبور کروایا تھا۔ خیر، بادشاہ نے نظام سقے کو اپنا تاج پہنایا اور تخت پر بٹھایا اور خود محل میں چلا گیا، رکیئے !کہانی تو اب شروع ہوتی ہے تخت پر بیٹھنے کے بعد نظام سوچ میں پڑ گیا کہ کروں تو کیا کروں تاکہ تاریخ میں مجھے یاد رکھا جائے اس نے حکم دیا کہ میرے نام کا سکہِ رائج کیا جائے درباری بولے سرکار یہ تو لمبا کام ہے اور آپ صرف ایک دن کے بادشاہ ہیں، نظام سقہ، نہیں یہ کام ضرور ہونا چاہے(نظام موچی تھا) خیر اس کا یہ حل نکالا کہ چمڑے کا سکہ جو ایک دن میں بن کر رایج ہو سکتا تھا وہی کر دیا۔
یہ تو تھی مغلیہ دور کے نظام سقہ کی روداد، ہمارے دور میں بھی پاکستان میں بہت سے نظام سقے آئے ہیں جن کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی، دو فرلانگ کی سڑک بننے سے کئی سال پہلے اس پر کتبہ لگ جاتا ہے کہ سڑک عزت مآب فلاں ۔۔۔۔۔ ایم پی اے کی کوششوں سے یا کی طرف سے اہل علاقہ کو تحفہ، ایک ۵۰۰ میٹر کی سڑک کے کتبے کو میں بھی جانتا ہوں جو ہمارے علاقہ کی تھی۔ سڑک تو سڑک کئی بڑے بڑے منصوبوں کی تختی نہیں تختہ کشائی اور فیتہ کٹوائی کی تقریب کئی کئی ادوار میں کئی کئی بار ہوتی ہے، اسلام آباد ائیرپورٹ اس کی زندہ مثال ہے،(نوید ہے کہ ملک کے بڑے ائیرپورٹس کو گروی رکھا جارہاہے) اور منصوبوں کے بارے میں مت پوچھیں۔ اگر بات یہیں تک رہتی تو ٹھیک تھا۔ اس دور میں لوگوں کو صحت کی سہولیات کے سلسلہ میں صحت کارڈ تقسیم ہوئے تو اس پر ’’نواز سقہ‘‘ کی تصویر نظر آئی اب یہ نہیں پتہ چلتا کہ کارڈ کس کا ہے ا ور دوائی کی ضرورت کس کو ہے اور یہ بھی الگ بات ہے کہ ہسپتال ہیں یا نہیں ہسپتال میں دوائی ہے یا نہیں دوسری سہولیات بھی ہیں یا نہیں، بینظیر انکم سپورٹ کارڈ بھی عمدہ مثال ہے۔ مذاق تو اب شروع ہوتا ہے جناب! ایک طالبعلم محنت کرکے جب پاس ہوتا ہے تو اسکو جو سند (سرٹیفیکیٹ) ملتی ہے اس پر ’’ شہباز سقہ‘‘ کی تصویر ہوتی ہے گورنمنٹ کا کوئی اشتہار دیکھ لیں کسی بھی اخبار میں اس پر کئی کئی ’’ سقوں ‘‘کی تصویر یں ہوتی ہیں۔
جدید دور کے ایک اور نظام سقہ کی کہانی بھی پڑھتے جایئے اس دور کے نظام سقہ نے بہت زیادہ ترقی کی ہے اگرچہ اس دور میں سکے اب ووٹ کہلاتے ہیں جس کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی کما ل ہنر مندی سے ایک خود کار فیکٹری سے حکومت میں تبدیل کیا جاتا ہے اس نظام کے پاس بڑے بڑے ماہرین موجود ہیں جو خاندانی اور پشتینی ہنر مند ہیں اس دور کے ایک سقہ نے تیسری بار وزیراعظم بننے کا بل پچھلی حکومت سے پاس کروا کر تیسری بار وزیراعظم بن گیا (یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان میں بادشاہت جمہوری نظام کے تحت آتی ہے کوئی بھی بھی بچہ جمور اِن اَن دیکھی طاقتوں کے اشارے پر ووٹ پر نہیں، جمہوری بادشاہ بن کر ہر سیاہ و سفید کا مالک بن جاتا ہے ) اور شیر شاہ سوری کے نقش قدم چلتے ہوئے ’’موٹر ویز (جن کو گروی رکھ دیا گیا ہے)، اورنج ٹرین، جنگلا بسوں اور سڑکوں کا جال (یہ خیر قابل تحسین کام ہے) بچھانے کے بعد اور کئی قسم کے بے کار منصوبوں کے بعد سوچ میں پڑ گیا کہ ایسا کیا کیا جائے کہ پاکستانی اور آنے والی نسلیں یاد رکھیں بلکہ ہاتھ لگا لگا کر دیکھیں کہ ان کے ساتھ کیا ہاتھ ہو گیا ! انہوں نے اپنی’’داستان حیات‘‘چھپوا کر نصابی کتب کے درجے کا نوٹس پنجاب کی تمام لایبریوں میں جاری کروادیا۔ اللہ سے دعا ہے کہ کوئی درباری ہمارے نظام سقہ کو یہ مشورہ نہ دے دے کہ سرکار سکہ رائج الوقت میں تبدیلی کریں گے تو نظام سقہ کے ہم پلہ آیں گے اورعز ت مآب سچ مچ کہیں قایداعظم کی جگہ اپنی فوٹو نہ چسپاں کروادیں اور لوہے کے سکے بھی رایج کروادیں۔ قارئین سے معذرت اگر غلطی سے کوئی غلط نام چھپ گیا ہو ’’نظام سقہ ‘‘ کی جگہ!!!