1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. احسن اقبال/
  4. ایک دشمن جو گھر بیٹھا ہے

ایک دشمن جو گھر بیٹھا ہے

ہر باکردارانسان یہ چاہتا ہیکہ وہ کسی سےکوئی دشمنی نہ رکھے، کیونکہ اسکے اثرات اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ انسان اگر اس دشمنی کو ختم کرنا بھی چاہے تو مشکل ہوتا ہے۔ اور اگر بالفرض انسان اس کا شکار ہو جائے تو اس کی کوشش یہ ہوتی ہیکہ وہ اپنے متعلقین میں سے کسی کو بھی اس کا نشانہ نہ بننے دے۔ عام طور پر تو دشمن ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن کبھی کبھار دشمن خود سامنے آئے بغیر بہت بڑی چال بھی چلتا ہے اپنے مقابل کو شکست دینے کی۔ لیکن کیونکہ سادہ لوح انسان اسکی اس نہایت نقصان دہ چال کواپنے لیے فائدہ مند سمجھتا ہے، اور وہ اسکے فوائد بیان کرنے کیلئے اپنے عقل کے گھوڑے بھی دوڑاتا ہے۔ کبھی کوئی عقل مند اسکی عقل کے گھوڑوں کی لگام پکڑ کر اسکو کسی مقام پر رک جانے کی نصیحت کرتا ہے، لیکن وہ اپنے جنون و مستی میں گم کسی مقام پر ٹھرنا پسندنہیں کرتا ہے۔ تو اسکی اس حالت کے پیش نظر اسکا دشمن کامیابی سے ہمکنار ہو جاتا ہے۔

ایک ایسا ہی دشمن جوآج ہمارے معاشرے میں پرورش پا رہا ہے۔ وہ معاشرتی ابلاغ ہے۔ جسکی رسائی تقریبا ہر گھرتک ہے۔ جس نے ہماری نوجوان نسل کو پستی کی طرف دھکیلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ کبھی ہم نے چند لمحے اس فکرپر خرچ کرنے کی زحمت کی ہیکہ آج کل ہماری نوجوان نسل کہاں گم ہے۔ ۔ ؟ اور اس کی مصروفیات کا مرکز کیا ہے۔ ۔ ؟ اگرچہ ایک نوجوان آپکا بیٹا تو ہے، لیکن ساتھ ہی وہ نوجوان کسی قوم کی امید کی کرن بھی ہے۔ لیکن آج انکے اوقات کا اکثر حصہ لایعنی کاموں میں گزر رہا ہے، خاص کرمعاشرتی ابلاغ (سوشل میڈیا) میں۔ ہمارے اکژ نوجوان اسمیں اتنے مصروف ہیں کہ انکی اصل فکر ان سے کوسوں دور ہے۔ نہ دن کا پتہ چلتا ہے کہ کب چڑہا اور نہ شام کی خبر کہ کب الوداع ہوئی۔ کیونکہ انسان جب افسانوں میں کھو جاتا ہے، تو حقیقت کی خبر نہیں ہوتی۔ ہمارے معاشرے میں سوشل میڈیا کے استعمال کا رجحان اتنا بڑھ چکا ہیکہ اس دشمن نے تقریباہمارے ہرگھرکو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اگرچہ اسکے فوائد بھی ہیں لیکن فوائد تب حقیقی معنوں میں فوائد کہلاتے ہیں جب ان میں زہریلے نقصانات نہ ہوں۔ ۔ اسکی مثال ایسی ہیکہ ایک صندوق میں کچھ مال ہو لیکن اسکے اوپر ایک بڑا اور خطرناک قسم کا سانپ بیٹھا ہو تو عقل مند آدمی کی کوشش ہو گی کے سانپ کو مار کر مال حاصل کیا جائے۔ ۔ اور اگر وہ سانپ کو مار نہ سکا تو وہ دولت کو حاصل نہیں کر سکتااور اگر اسنے اس سانپ کو مارے بغیر مال لینے کی کوشش کی تو جان سے ہاتھ دہو بیٹھے گا۔ ۔ معلوم ہوا کہ جب منفعت کے ساتھ دفع مضرت ضروری ہے۔ ۔ بالکل ایسی ہی حالت معاشرتی ابلاغ کی ہے۔ ۔ ۔ آپ اسکے ذریعے کچھ معلومات تو حاصل کر لیں گے لیکن یہ آپکی ذہنیت، آپکی روحانیت کاکباڑا کردے گا۔ اس سے آ ج ہمیں جو نقصان ہو رہے ہیں ان میں سے چندکو سپرد قلم کرتا ہوں۔

سب سے بڑا نقصان بد نظری ہے۔ ۔ اس سے انسان کے قوّت حافظہ پر گہرا اثر پڑتاہے۔ اور انسان کےاندر حیاء ختم ہو جاتی ہے، اور جس آدمی میں حیاء نہیں فرمان ہے، کہ وہ جو چاہے کرے، معلوم ہوا کہ حیاء انسان کو بہت سے قبیح افعال سے روک لیتی ہے، اور جو آدمی قبیح افعال سے بچ جائے، معاشرہ اسے عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے، اور حیاء دار آدمی کی کشش حسن سے ذیادہ ہوتی ہے، لیکن جس آدمی میں حیاء نہ ہو اسکواپنے بھی بیگانہ تصور کرتے ہیں۔

دوسرا بڑا نقصان یہ ہیکہ انسان اپنے وقت کو برباد کرتا ہے۔ اور اس وقت دنیا میں جس چیزکی سب سے زیادہ ناقدری کی جا رہی ہے وہ وقت ہے۔ کل بروز محشر ہم سے اسکے بارے میں سوال ہوگا۔ اور عجیب بات ہیکہ انسان اس وقت کو ضائع ہوتا تصور بھی نہیں کرتا، وہ یہ سمجھتا ہے کہ اسکو نئی نئی معلومات حاصل ہو رہی ہیں۔ لیکن حقیقت اسکے برعکس ہے، یہ سب شیطانی چال ہوتی ہے، کیونکہ شیطان دوست عناصرکا جو سب سے بڑا مشن ہے، وہ اسلام پسند لوگوں کے اوقات کسی طرح ضائع کرنا ہے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر ہمارے مسلمانوں کی توجہ اپنے مقاصدسے سرک جاتی ہے، تو انکی اسلامی تعلیمات اور انکی تہذیب وتمدّن کا قتل آسان ہو جائے گا۔ اگر ہم آج تک کچھ باقی ہیں تو وہ ہمارے اسلاف اور موجودہ اکابر کی بدولت ہے۔ ورنہ اگر ہم اپنے گریبان میں جھانکیں تو یہ الفاظ زبان پر جاری ہوتے ہیں:

ہم تو ڈوبے ہیں صنم ساتھ تجھ کو بھی لے ڈوبیں گے

تیسرا نقصان یہ کہ ہمارے نوجوان حضرات کی سوچ facebook وغیرہ کی وجہ سے دن بدن پستی کا شکار ہو رہی ہے، کیونکہ ہمارے وہ نوجوان جن کے افکار اتنے بلند پایہ کے تھےکہ باطل انکی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے سے پہلے ہزار دفعہ سوچتا تھا، آ ج وہ نوجوان اپنی کامیابی کا دارومدار facebook وغیرہ پر ہونے والے comment اور like کو سمجھتے ہیں، جس کے پھلائی گئی کسی بھی چیز پر انکی کثرت ہو گی وہ خد سے افلاطون بنا ہو گا۔

چوتھا نقصان ایک عجیب تصورکی پیدائش ہے۔ کہ کچھ لوگوں میں یہ سوچ پائی جا رہی ہے کہ وہ اسکے ذریعے دین کی باتیں پھیلا رہے ہیں، یا دین کی باتیں حاصل کر رہے ہیں، لیکن ایک بات شاید بھول جاتے ہیں ہم کہ دین دو بٹن دبا دینے سے نہیں پھیلتااور نہ ہی حاصل ہوتا ہے، اس کے لیے قربانی دینی پڑتی ہے۔

پانچواں نقصان علمی رسوخ میں کمی ہے۔ کہ جب ایک آدمی نے اپنی مصروفیت کے لیے سوشل میڈیا کو اپنا دوست بنایا ہوگا، تو اسکو اسکی ایک انجانی سی فکر ضرور ہو گی، جس کی وجہ سے وہ اپنے اوقات کو اس پر بھی خرچ کرنے لگ جاتا ہے، اور رفتہ رفتہ تعلیمی سرگرمیوں سے لاتعلق ہو جاتا ہے، اگرچہ وہ جسمانی طور پر کسی علمی یا ادبی مجلس میں ضرور بیٹھتا بھی ہوگا، لیکن ذہنی طور پر وہ غیر حاضر ہوتا ہے۔ اسکیوجہ سےعلم کما حقہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ ہماری اسی حالت کو علّامہ اقبال نے یوں بیان کیاہے:

تو اپنی خدی کو کھو چکا ہے

کھوئی ہوئی شے کی جستجوکر

اگر اب ہم نے ان باتون کو سنجیدگی سے نہ سوچا تو پھر شاید بہت دیر ہو جائے گی۔

اللہ تعالیٰ ہمارےملک کی حفاظت فرمائیں، اور ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائیں۔ آمین۔ ۔ !