1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ایاز رانا/
  4. ایک اور زری پالیسی کا اعلان

ایک اور زری پالیسی کا اعلان

یقینا اس بات کے واضح اشارے نظر آ رہے تھے کہ اگلے دو ماہ کی زری پالیسی کا جو اعلان کیا جائے گا تو اس میں کم از کم 100 بی پی ایس ریٹ میں اضافہ دیکھا جائے گا اور یہ ہی ہوا اگلے دو ماہ کے لئے شرح سود میں اضافہ کر دیا گیا جو کہ 12.25 فیصد سے بڑھ کر اب 13.25 فیصد پر پہنچ گیا ہے۔ ہمیشہ کی طرح بڑھتی ہوئی مہنگائی اور نئے مالی سال کے بجٹ میں بجلی گیس کی قیمتیں میں اضافے کو جواز بنا کر اسٹیٹ بینک نے نئے پالیسی ریٹ میں اضافہ کیا ہے بینک دولت آف پاکستان کے مطابق مہنگائی کی شرح 11 سے 12 فیصد ہے جو کہ حقیقی طور پر 15 فیصد سے بھی ذیادہ محسوس کی جا رہی ہے۔ اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ ماضی کے معاشی عدم توازن کی وجہ سے شرح سود بڑھانا پڑ رہا ہے جبکہ گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ اب تک کے مطابق مزید اس شرح کو بڑھانے کی ضرورت نہیں لگ رہی مگر ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے پاکستان کو 14 فیصد تک شرح سود لے جانےکے لیے کہا ہے مگر آج گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے کہا ہے کہ اب اس سے ذیادہ شرح سود کی ضرورت نہیں ہے مگر ماہرین معاشیات کا کہنا ہے یہ حکومت بلا ضرورت شرح سود بڑھا رہی ہے اس سے خود حکومت کے اندرونی قرضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے مگر اس وقت معاشی بحران پر بھی قابو پانا ضروری ہے حالیہ دنوں میں کراچی چیمبر کے سابق صدر اور بزنس مین گروپ کی ایک نامور شخصیت زبیر موتی والا سے میں نے سوال کیا کہ اس شرح سود کے ریٹ میں انڈسٹریز والے کیسے کام کرے گے اس پر ان کہنا تھا کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری اس وقت بہت مشکل میں ہے ہمارے پر 17 فیصد کا ٹیکس لگا دیا گیا ہے جبکہ ہم زیرو ریٹیڈ انڈسٹری تھے میں کہا اس وقت ملک کو ضرورت ہے آپ لوگ بھی اپنا حصہ ڈالے تو اس پر ان کا کہنا تھا کہ یہ ٹیکس کا پیسہ ہم کو حکومت واپس کر دیتی ہیں مگر اس سے قبل ہم نے جو ریٹرن فائل کر تھے وہ اب تک نہیں ملے تو اب یہ حکومت کیسے واپس کرے گی جبکہ شبر زیدی اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ چار ماہ میں ریٹرن فائل کرے ہم آپ کا پیسہ واپس کر دے گے مگر بات صرف اتنی ہے کہ حکومت پر پورا بھروسہ ہے مگر ایف بی آر تو وہی پرانہ ہے ہمارے پہلے کئی سالوں کے ریٹرن باقی ہے اب اگر 4 ماہ میں واپس نہ کرے تو مجبورا ہم کو بینک سے لون لینا پڑے گا اور اس وقت جو شرح سود 13.25 فیصد ہو گیا ہے جس کے بعد نجی بینکوں سے لیے جانے والے قرضے 15 فیصد یا اس سے بھی زائد شرح پر ملے گے اس کے بعد 31 فیصد گیس کی قیمتوں میں اضافہ کے بعد اس طرح کے حالات میں انڈسٹریز کیسے چلے گی مگر بات یہ بھی ہے کہ حکومت کے پاس اس وقت کوئی اور آپشن ہے بھی نہیں آئی ایم ایف کی شرائط میں ان باتوں کو واضح کر دیا گیا ہے کہ حکومت ٹیکس کی وصولی میں اضافہ کرے گی اور بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھا کر بھی ٹیکس وصول کرے گی۔ حکومت کے اقدامات کو کاروباری طبقے تنقید کے ساتھ ساتھ اب عملی طور پر ہڑتال کر بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔