1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ایاز رانا/
  4. بہ سلسلہ کہتا ہوں سچ

بہ سلسلہ کہتا ہوں سچ

تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی سوپر پاور سوویت یونین (روس) سے15 آزاد ریاستوں بننے کا سبب صرف اور صرف معاشی مشکلات اور اس پر وہاں جاری علیحدگی پسند تنظیمیں تھی۔ اس بات کا ذکر کرنا اس لیے ضروری سمجھا کیونکہ دنیا کی اتنی بڑی سوپر پاور روس معاشی بحران کی وجہ سے اپنے آپ کوسنھبال نہ سکا اور اس وقت کہا یہ جا رہا کہ پاکستان کو بیل آوٹ پیکیج کی شدید ضرورت ہے اور پاکستان کو 10 سے 15 بلین ڈالر کی رقم درکار ہے جو عمران خان کے وزیراعظم ہاؤس نہ جانے سے پوری ہو گی اور نہ وہاں کھڑی گاڑیوں اور بھنسوں کے بیچنے سے پوری ہو سکتی ہیں میں نے اس سے پہلے بھی یہ بات لکھی تھی کہ اس نئی حکومت کو کچھ اقدامات فوری لینے ہونگے اس میں سب سے پہلے نیا بجٹ لے کر آئے اسد عمر صاحب بجٹ تو لائے مگر جو کرنے والے کام تھے وہ نہ کر سکے ٹیکس فائلرز پر مزید بوجھ ڈال دیا اور ساتھ ہی ساتھ سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل نے نان فائلرز ٹیکس چوروں پر جو پابندیاں عائد کی تھی ان کو ایک بار پھر ختم کر کے تمام ٹیکس چوروں کو کالے دھن کو چھپانے کا موقع فراہم کر دیا ہیں یعنی (این ٹی این) نیشنل ٹیکس نمبر کی بغیر نہ نئی گاڑی لی جا سکتی تھی اور نہ کوئی پراپرٹی ان کے لئے لازمی شرط درکار تھی کہ آپ کے پاس این اٹی این نمبر ہو وہ اب ختم کر دی گی یعنی اب کوئی بھی فرد آرام سے گاڑیوں اور پراپرٹی کے بزنس میں پیسہ لگا سکتا ہے چاھے وہ پیسہ جیسے بھی کمایا گیا ہو۔

جب سے یہ اقدامات اس نئی حکومت نے لیے ہے گاڑیوں اور ریئل اسٹیٹ کے کاروبار سے جڑے لوگوں میں خوشی کی لہر پیدا ہوگی ہیں مگر عام آدمی اس بات سے ایک بارپھر پریشان نظر آ رہا کے پہلے ہی پاکستان میں ایسمبل ہونے والی گاڑیوں کی قیمتیں آسمان کو چھورہی ہیں اور اس پر اللہ کی پناہ اون منی کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو جائے گا اور رشوت اور کالا دھن کا پیسہ رئیل اسٹیٹ میں لگ کر سفید با آسانی ہو جائے گا شاید وزیر خزانہ محترم اسد عمر صاحب یہ بات بھول گئے کہ پچھلی حکومت نے ٹیکس چوروں پر جو پابندیاں عائد کریں تھی وہ فائنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی ممکنہ پابندیاں کے امکانات کی بناء پر ٹیکس ریفوم کی گی تھی شاید اس حکومت کو اس بات کا ادراک نہیں کہ اب بھی پاکستان ایف اے ٹی ایف کی واچ لسٹ میں شامل ہے اور پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ دسمبر میں ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں کیا جائے گا۔ عمران خان کی ٹیم اس بات پر کبھی بھی آمادہ نہیں تھی کہ وہ آئی ایم ایف سے قرضہ لے کر اپنے امور چلائے گی مگر اب تک میں نے جن جن معاشی ماہرین سے پوچھا ہے کہ آئی ایم ایف کے علاوہ اس حکومت کے پاس کیا آپشن ہے تو کوئی فوری حل نظر نہیں آ رہا سب کا خیال ہے درآمدات پر قابو کرے اور برآمدات بڑھائی جائے مگر سوال یہ ہے کہ راتوں رات یہ تو ممکن نہیں مگر اگلے دو سال میں اس کو ممکن بنایا جا سکتا ہیں تو پھرفوری راستہ تو آئی ایم آف کے علاوہ نظر نہیں آ رہا وزیر خزانہ محترم اسد عمر صاحب قرضہ لینے میں اس لیے گھبرا رہے ہیں کیونکہ عمران خان اپنے جلوسوں میں پچھلی حکومتوں کو قرضے لینے پر بہت برا بھلا کہتے رہے ہیں تو وہ بھی وہی کام اب کیسے کریں مگر اب اس کے سوا کوئی اور چارہ بھی نہیں۔

آئی ایم ایف سے مذاکرات جاری ہے مگر اطلاعات کے مطابق آئی ایم آف کی پہلی شرط یہ ہے کہ روپے کی قدر کو ایک دفعہ اور کم کیا جائے جو یہ حکومت کرنے کو تیار نہیں کیونکہ اس طرح کرنے سے قرضوں کا بوجھ خود بہ خود بڑھ جائے گا پہلے عالمی منڈی میں تیل اور گیس کی قیمتیں بڑھ چکی ہیں اور خزانہ خالی ہے بیرونی قرضہ 9 بلین امریکی ڈالر جو کہ چین کو فوری ادا کرنا ہے اور ساتھ ہی گردشی قرضے 1بلین روپے سےبھی بڑھ گیا ہے ان سب وجوہات کی بنا پر وزیر خزانہ نے نیپرا کو بجلی کی قیمتوں میں 55 پیسے بڑھانے کو کہا ہے تاکہ جو عالمی مارکیٹ میں تیل اور گیس کی قیمتیں بڑھی ہے اس کو پورا کیا جا سکے اور ساتھ ہی ایل پی جی (LPG) کی قیمتوں میں اضافے کے بعد سی این جی )CNG اسٹیشن مالکان بھی تقریبا 22 روپے فی کلو قیمت میں اضافے کی تجویز پر عملدرآمد کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ ان تمام مسائل کے ساتھ ہی اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی زرعی پالیسی کا اعلان کر دیا جس میں شرح سود 7 اشاریہ 5 سے بڑھا کر 8 اشارہ 5 کر دی گی اور اس بات کا بھی امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ تیل اور گیس کی قیمتوں کے اضافے سے مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہو سکتا ہیں اسٹیٹ بینک کے مطابق اعدادوشمار کے مطابق مہنگائی (inflation)، خصوصاً مارچ 2018ء سے۔

اب تک مالی سال 19ء کے ابتدائی دو مہینوں میں مہنگائی کی شرح 5.8 فیصد کی اوسط سطح پر رہی ہے جبکہ مالی سال 18ء کی اسی مدت میں یہ 3.2 فیصد اور پورے مالی سال 18ء میں اس کی اوسط 3.9 فیصد تھی۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق حالیہ زرعی اور مالیاتی اقدامات پر عملدرآمد سے امکان ہے کہ بڑے پیمانے کی اشیا سازی (ایل ایس ایم) کا شعبہ متاثر ہو گا۔ تازہ ترین معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ کپاس کی پیداوار مالی سال 19ء میں اپنے 14.4 ملین گانٹھوں کے ہدف سے کم رہنے کی توقع ہے، جس کے زرعی شعبے پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ طلب و رسد دونوں کی تازہ ترین معلومات کو شامل کرنے کے بعد اسٹیٹ بینک کو توقع ہے کہ مالی سال 19ء میں جی ڈی پی کی شرح تقریباً 5 فیصد رہے گی۔ یہ تمام اعداد و شمار اپنی جگہ مگر اس وقت پاکستان کو بیل آوٹ پیکیج کی شدید ضرورت ہیں کہتے ہے کہ 2008 میں پاکستان نے آئی ایم ایف سے ملک کی تاریخ کا سب سے ذیادہ بیل آوٹ پیکیج 7 اشارہ 6 بلین ڈالر لیا تھا مگر اس دفعہ اگر یہ حکومت آئی ایم ایف کی طرف جائے گی تو وہ پرانے سارے ریکارڈ توڑ دے گی اور 10 سے 15 بلین امریکی ڈالر کا پاکستان مزید مقروض ہو جائے گا۔