1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ایاز رانا/
  4. جنرل مشرف سے عمران خان تک

جنرل مشرف سے عمران خان تک

سوویت روس سے مقابلہ کرنے کہ لیے امریکہ نے اپنے اہم خیال ممالک کے ساتھ مل کر نیٹو افواج بنائی اور سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد نیٹو فورس کی مزید ضرورت نظر نہیں آ رہی تھی۔ مگر ایسا ممکن ہوتا نظر نہیں آیا اور اس وقت امریکہ کے وزیر خارجہ(ہنری کسنجر) کا کہنا تھا اب روس نیٹو ممالک کے لیے خطرہ نہیں ہے مگر اب امریکہ اسلام بنیادی پرستی کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتا ہے اور اس کو جڑ سے اکھاڑ دینا ہی ہماری قومی پالیسی کا سب سے بڑا مقصد ہے۔
مئی 2000 میں بین الاقوامی دہشت گردی کے حوالے سے امریکہ کے محکمہ خارجہ نے 107 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ شائع کی جس میں جنوبی ایشیا کو عالمی دہشت گردی کا مرکز قرار دیا گیا۔ رپورٹ میں جن ممالک کا ذکر کیا گیا اس میں پاکستان، ایران، عراق، کیوبا، لیبیا، شمالی کوریا، سوڈان اور شام شامل تھے۔ اس روپورٹ میں پاکستان کے خلاف بہت کچھ لکھا گیا تھا۔
سب جانتے ہے 11 ستمبر 2001 (9/11) کا واقعہ امریکہ کی تاریخ کا بد ترین دہشت گردی کا واقعہ ہے یہ وہ واقعہ ہے جب دو مسافر طیاروں کو اغوا کیا گیا ایک کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرادیا اور دوسرے کو پینٹاگون پر گرا دیا گیا جس کے نتیجے میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر مکمل تباہ ہو گیا اور ہزاروں لوگوں کی جانیں چلی گئی۔ اس واقعہ نے پوری دنیا کو بدل کر رکھ دیا امریکہ نے اس کو عالمی دہشت گردی قرار دیا اور اس دہشت گردی کا ماسٹر مائنڈ اسامہ بن لادن کو ٹھرایا۔ اس وقت اسامہ افغانستان میں موجود تھا اور امریکہ نے افغان حکومت (طالبان ) سے اسامہ بن لادن ان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا مگر اس وقت کی افغان حکومت (طالبان) نے بلا کسی ثبوت کے اسامہ کو امریکہ کے حوالے سے انکار کر دیا جس پر امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر 17 اکتوبر 2001 کو افغانستان پر حملہ کر دیا۔
مگر حملے سے قبل امریکہ نے پاکستان سے مدد اور تعاون طلب کیا اور انکار کی صورت میں پاکستان کو پتھر کے دور میں دھکیل دینے کی دھمکی بھی دے ڈالی، جب یہ واقعہ پیش آیا اس وقت پاکستان کی باگ دوڑ مشرف صاحب کے ہاتھوں میں تھی۔ اور جنرل صاحب نے اس وقت ملک کی بقاء و سلامتی آزادی اور قومی مفاد کے پیشے نظر سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگایا اور امریکہ کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا اور پاکستان امریکہ اہم اتحادی بن گیا۔
پاکستان دہشت گردی کی جنگ کے خلاف امریکہ کا اہم اتحادی بنا اور امریکہ کا بھرپور ساتھ دیا مگر سن2001 سے 2017 تک امریکہ پاکستان پر اعتماد نہیں کرتا تھا جس کا ذکر صدر ٹرمپ نے بھی وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات میں کیا۔ امریکہ ہر بار ڈو مور (Do more) کا نعرہ لگا کرتا تھا دہشت گردی کی یہ جنگ افغانستان سے نکل کر پاکستان تک پہنچ گئی جس کا اعتراف دنیا نے بہت دیر سے کیا مگر ہم نے اس کے لیے 70 ہزار جانیں دی اور کئی ارب ڈالر سے ذائد کا نقصان اٹھایا ہے اور اس جنگ کی وجہ سے ہماری معیشت بھی مستحکم نہیں ہو سکی اور 2017 تک کی سیاسی حکومتیں امریکہ کو اس بات کا ادراک کرانے میں ناکام نظر آئی ہیں پاکستان نے اس جنگ کا کتنا نقصان اٹھایا ہیں اور ان کی جنگ اب ہماری بھی جنگ بن چکی ہے مگر جب صدر ٹرمپ سے وزیر اعظم عمران خان کی ملاقات ہوئی ہے اور امریکی صدر کی جانب سے پاکستان کی قربانی کا اعتراف اور صدر ٹرمپ کی پاکستان اور انڈیا کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی جنگ میں ساتھ دینے اور موثر اقدامات اٹھائے پر امداد کے بحال کرنے کا اشارہ بھی دیا۔ ماہرین کا کہنا ہے امریکہ پاکستان سربراہان کے درمیان ہونے والی ملاقتوں میں اب تک عمران خان کی ملاقات مثبت اور موثر نظر آ رہی ہے اگر امریکی صدر پاکستان اور انڈیا کے درمیان 70 سال سے جاری کشمیر کا مسئلہ حل کرنے میں کامیاب ہو گیا تو اس خطے کی ترقی کو کوئی روک نہیں سکے گا۔