1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ایاز رانا/
  4. گودار کے ماہی گیر

گودار کے ماہی گیر

پی ٹی آئی حکومت کے آئے تھوڑے دن ہی گزرے تھے کہ کچھ حلقوں کی جانب سے یہ آوازیں آنی شروع ہو گئی تھی کہ پی ٹی آئی حکومت سی پیک منصوبے کے خلاف ہے لوگوں نے یہاں تک کہا کہ عمران خان نے دھرنا بھی اسی مقصد کے تحت دیا تھا کہ پاکستان اور چین کے درمیان ہونے والے معاہدہ ون بیلٹ ون روڈ کو روکا جائے اور اس کو ناکام بنایا جائے کیونکہ چینی صدر شی چن پنگ کے دورہ اس دھرنے کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوا تھا۔

مگر 20 اپریل 2015 کو چینی صدر 3 روزہ دورے پر پاکستان آئے اور اقتصادی راہداری کے 30 منصوبوں سمیت 51 معاہدوں پر دستخط کر دیئے، جس کے بعد ہم نے دیکھا کہ بہت تیزی سے اس پر کام شروع کردیا گیا اور ساتھ ہی تمام صوبوں کی جانب سے اس اقتصادی راہداری میں اپنے صوبے کا حصہ یا اس سے فائدہ اٹھانے کی باتیں بھی سامنے آنے لگی مگر اس منصوبے تحت سب سے اہم جو کام ہونا تھا وہ گوادر میں بندرگاہ کا تعمیر ہونا اور ساتھ ساتھ گوادر کی ترقی شامل تھی اس وقت گودار پورٹ پر 3 برتھ تیار ہیں اور باقی کام بھی چل رہا ہے۔۔۔

یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ گودار جو سب سے اہمیت کا حامل شہر ہے اس کو کیا ملا۔

کراچی کے مقامی ہوٹل میں بلوچستان اکنامک فورم کے صدر سردار شوکت پوپلزی کی کاوشوں کے نتیجے میں گودار سے تعلق رکھنے والے فیشرمین کارپوریشن کے ایک وفد جس میں جناب بابو گلاب اور خدابخش صاحب کی سربراہی میں ملاقات کا اہتمام کیا گیا جس میں چین کے قونصل جنرل وانگ یو (Wang Yu) نے خصوصی طور پر شرکت کی اس ملاقات میں میرا جانے کا اتفاق ہوا وہاں گیا تو پتہ چلا کہ قونصل جنرل وانگ یو کی جانب سے ماہی گیروں کے لئے جو گودار سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے لئے20 کے قریب کشتیوں کے انجن، 200 جال، سولر سسٹم سولر پینل، 200 سولر لائٹ، پنکھے وغیرہ دیے گئے۔

چین کے قونصل جنرل کا کہنا تھا کہ مجھے پتہ ہے یہ بہت کم مقدار ہے مگر ہم نے اس کام کو شروع کیا اور اگر یہ منصفانہ طریقے سے مستحق لوگوں تک پہنچ گیا تو یہ کام چین کی حکومت کے تعاون سے جاری رہے گا۔

گودار سے تعلق رکھنے والے ماہی گیروں کا کہنا تھا کہ گوادر پورٹ بن گیا مگر ہماری مشکلات کے بارے میں نہیں دیکھا گیاہم وہاں کئی دہائیوں سے آباد ہے اور ماہی گیری کے پیشے سے وابستہ ہے ہمارا تعلق پسماندہ طبقے سے ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ گودار میں ترقی ہو اور وہاں آباد لوگوں کو بھی اس سے فائدہ نہ پوچھے۔

ماہی گیری کی صنعت کو توجہ کی ضرورت ہے۔ ہمارے لئے بریک واٹر کا قیام کرنا چاہے تھا تاکہ ہم اپنی کشتیوں کو وہاں کھڑا کر سکے اور اس کے علاوہ جہاں پر تعمیراتی کام ہو رہا ہے وہاں آباد گودار کے لوگوں کی آبادکاری کے مسئلے کا حل نکلا جائے ایکپریس وے کی تعمیر جلد از جلد مکمل کی جاے تاکہ گودار پورٹ پر بھی کام شروع ہو اور ہمارے علاقے لوگوں کو بھی روزگار کے مواقع فراہم ہو۔۔۔

ماہی گیروں کا کہنا تھا کہ ہمارے بچوں کو تعلیم اور صحت کے لئے بھی کام کیا جائے۔۔ جس پر قونصل جنرل وانگ یو نے کہا ہم سمجھتے ہے گودار کے لوگوں کو بہت مشکلات کا سامنا ہیں یہ جو تحفے آپ لوگوں کو دئیے جا رہے ہیں وہ اس وقت آپ لوگوں کی ضرورت ہے ہم سمجھتے ہے گودار پورٹ وہاں کی عوام کے لئے چین کی جانب سے سب بڑا تحفہ ہوگا ان کہنا تھا ہم چاہتے ہے گودار کے لوگ تعلیم حاصل کریں اس لئے ہم نے وہاں وکیشنل تعلیم کے لے اسکول کا قیام کیا ہے ساتھ ساتھ اسپتال کی ضروریات کو سمجھ رہے ہیں ان کہنا تھا میں چاھتا ہوں آپ لوگ اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دے اس کے لئے ہم آپ کو اسکالرشپ بھی دے گے۔۔

ان تمام باتوں سے ایک بات تو واضح ہو گی کہ چین اب خود خاص طور پر گوادر کے مقامی لوگوں کی مشکلات کو سمجھ رہا ہے اور ان کی آنے والی نسل کو بہتر سہولیات زندگی دینا چاہتا ہے جس کے لیے اس طرح کے اقدامات بھی چین کی جانب سے لیے جا رہے ہیں آخر میں ان کا کہنا تھا میری آپ لوگوں سے گذارش ہے کہ وہاں کے کچھ افراد آپ لوگو کو اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے استعمال کر سکتے ہے آپ کو ان کے منصوبوں کو ناکام بنانا ہے اور اپنی علاقے کی ترقی اور اپنی آنے والی نسل کی زندگیاں تبدیل کرنی ہیں۔۔۔

اس کے بعد میں نے قونصل جنرل وانگ یو سے ملاقات کی میرا پہلا سوال ان سے یہ تھا ایسا ظاہر کیا جارہا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت سی پیک منصوبے کو رول بیک کر رہی ہے تو ان کہنا تھا ایسا کچھ نہیں ہے سی پیک پر مختلف مراحل میں کام ہونا ہے اس وقت سی پیک پہلے مرحلے سے نکل کر دوسرے فیز میں داخل ہو گیا ہے سب بے بنیاد خبریں ہیں اس حکومت کے آنے کے بعد عمران خان نے چین کے دورے اور کئی ملاقاتیں کر چکے ہیں یہ تاثر دینا کہ پی ٹی آئی حکومت سی پیک منصوبے کے خلاف ہے غلط بات ہو گی۔۔۔ پاکستان چین کا دیرینہ دوست ہے اور رہے گا میرا دوسرا سوال ان سے یہ تھا کہ پاکستانی معیشت اس وقت بہت مشکل میں ہے تو آپ لوگوں کو ہی ہم نے پیسے واپس کرنے ہیں چینی حکومت کیسا دیکھتی ہے ان کا کہنا تھا اس میں کوئی شک نہیں اس وقت پاکستان کو معاشی مشکلات کا سامنا ہیں مگر لگ رہا جو اقدامات اس وقت پی ٹی آئی حکومت نے لیے ہیں خاص طور پر ٹیکس کے نظام کو دیکھتے ہوئے لگ رہا پاکستان کی معیشت سہی راستے پے چل پڑی ہے میں نے تیسرا آخری سوال بھی کر ڈالا کہ اس وقت انڈیا پاکستان کے درمیان کشمیر کے مسئلے کو آپ لوگ کیسا دیکھ رہے اس پر ان کہنا تھا چین اس بات پر قائل ہے کہ کشمیر پاکستان اور انڈیا کے درمیان متنازع ایشو ہے جو جنگ سے نہیں بات چیت اور ٹیبل پے بیٹھ کے حل ہونا چاہیے اور چین اب تک ہر فورم پر پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے جو ہماری دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔۔

آخر میں ان کا کہنا تھا کہ ہماری بزنس کمیونٹی پاکستان میں کام کرنا چاہتی ہے۔ حکومت کاروبار کرنے میں آسانی پیدا کرے یعنی ایز ٹو ڈوینگ بزنس پر کام کرے ایسا کرے گے تو پاکستان کے ساتھ ساتھ چین بھی ترقی کے سفر میں تیزی سے آگے بڑھے گا۔۔۔