1. ہوم
  2. کالمز
  3. ایاز رانا
  4. ہائے یہ نظام

ہائے یہ نظام

کراچی کی بد قسمتی کے بارے میں پہلے بھی بہت کچھ لکھ چکا ہوں۔ کیا کروں شہر کا حال دیکھ کر دل جل کے رہ جاتا ہے کراچی کے کسی بھی علاقے میں چلے جائیں گندگی کے ڈھیر ہیں یہ بات اب بولنے کی ضرورت نہیں پاکستان کے بچے بچے کو پتہ ہے کراچی کی اس وقت کیا حالت ہے مگر اگر پتہ نہیں ہے تو ان لوگوں کوجو اس کراچی سے ووٹ لے کے اعلی ایوانوں میں چلے گئے۔

میں ہر جگہ ہر فورم پے یہ بات کہتا ہوں اگر صوبہ سندھ کا جائزہ لیں تو اس وقت وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے تو گورنر پی ٹی آئی سے ہے صوبائی حکومت پیپلزپارٹی کی ہے تو چیف منسٹر پیپلز پارٹی سے ہے اور کراچی کی بلدیاتی حکومت کا نظام ایم کیو ایم پاکستان کے پاس ہے تو میئر کراچی ان کا ہے اب سوچنے کی بات ہے کس طرح یہ نظام چل سکتا ہے جب سیاسی درجہ حرارت اس وقت اپنی تمام حدود کو پار کر چکا ہے جتنی پریس کانفرنس روزانہ کی بنیاد پر کی جا رہی ہے اور ایک دوسرے کو ذمےدار ٹھراتے ٹھراتے یہ سیاست دان رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں اور کام کوئی کرنے کو تیار نہیں۔

مجھے اختلاف پاکستان میں چلنے والے نظام پر ہے یہ ضروری نہیں آپ لوگ میری بات سے اتفاق کریں، مگر آپ کےعلم میں ہونا چاہیے کہ کسطرح سیاست دانوں کی لڑائی کا فائدہ اصل نظام چلانے والے افسر شاہی یعنی سول بیوروکریسی کے لوگ اٹھاتے ہے آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ افسر شاہی کو انگریزی زبان میں بیوروکریسی (bureaucracy) کو آفسر شاہی، نوکر شاہی، دفتر شاہی بھی کہا جاتا ہیں۔ بیوروکریسی کی اصطلاح فرانسیسی زبان سے کے لفظ بیورو سے اخذ کیا گیا ہےجس کے معنی محکمہ یا ڈیپارٹمنٹ کے ہیں۔ اصل میں بیوروکریسی ایسا نظام ہے۔ جس میں بظاہر جمہوری ادارے اور عہدے وجود رکھتے ہیں لیکن اختیارات کا حقیقی استعمال افسروں کے ہاتھ میں ہی ہوتا ہے جو اپنے تجربے اور ٹیکینک کی وجہ سے اصل پالیسی ساز بھی ہوتے ہیں اور پالیسی پر عملدرآمد کی ذمہ داری بھی ان پر ہی ہوتی ہے جمہوری و سیاسی قیادت ان ہی افسروں کے مشوروں پر عمل کرتی ہیں افسر شاہی کا کردار قانون سازی، انتظامی اقدامات اور امور ملکی میں اہم ہوتا ہے سیاسی انتظامیہ کے نام سے صادر ہونے والے حکم نامے، فیصلے سب کے پس منظر میں یہ افسر شاہی ہی ہوتے جو ان تمام کو تخلیق کردار ہوتے ہیں۔

مگر ہم بہ آسانی صرف سیاسی لوگوں کو ہر مسئلے کا ذمہ دار ٹھہرا دیتے ہیں ایک طرح سے یہ بھی صحیح ہے کیونکہ یہ لوگ آپ کو الیکشن سے قبل اتنے سبز باغ دکھاتے ہیں اور مسائل میں پھنسی عوام ان کے جھوٹے وعدوں پر یقین کر کے ان کو ہی اپنا نجات دہندہ سمجھ لیتی ہے اور الیکشن میں کامیاب ہونے کے بعد وہ اپنے حلقوں سے غائب ہو جاتے ہیں چاہے شہر میں طوفانی بارشں ہوجاے یا ایمرجنسی کی صورتحال ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا وہ لوگ نظر ہی نہیں آتے کیونکہ وہ ان کا کام نہیں ہے اور حقیقت بھی یہ ہی ہے کیونکہ جو نظام رائج ہے اس کے تحت تو شہر کی صفائی کی ذمہ دار بلدیاتی حکومت کی ہونی چاہیے مگر یہاں بڑے مزے کی بات یہ ہے کہ ذمےداری لینے والا کوئی نہیں مگر کراچی میں تین حکمران جماعتوں کے لوگ بڑے بڑے عہدوں پر موجود ضرور ہیں اور ساتھ ساتھ ان کے پیچھے بیوروکریسی یعنی افسر شاہی بھی ہےمگر کراچی کی حالت پر اور یہاں رہنے والوں پر کسی کو رحم نہیں آتا سب کو کراچی پر اپنی حکومت کی اجارہ داری قائم رکھنی ہے اور کام بھی نہیں کرنا۔ اس وقت دنیا میں ٹکنالوجی نے لوگوں کی زندگی آسان سے آسان تر بنا دی ہے اور ہمارے حکمراں اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے اس وقت بھی سنہ 1800 کے قانون اور نظام کو سنہ 2020 رائج کئے بیٹھے ہیں، تاکہ پاور گیم سے باہر نہ ہو جائیں اس نظام کو رائج رکھنے میں سول بیوروکریسی سیاسی طاقتوں کے پیچھے کھڑی ہے کیونکہ وہ کسی بھی طرح اس نظام کو ختم نہیں ہونے دے گی۔

میں نے کراچی میں سب سے ذیادہ ڈیولپمنٹ یعنی ترقی ہوتی دیکھی تو وہ سنہ 2001 سے لے کر لگ بھگ سنہ 2012 تک تھی مگر یہ دور کیا تھا اور کس کا تھا اس سے قطع نظر۔ مگر پورے پاکستان میں ایک بلدیاتی نظام تھا جس سے پورے ملک میں ترقی اور ڈیولپمنٹ ہوئی اس دور میں ہر یونین کونسل میں ایک ناظم کے ساتھ نائب ناظم اور گیارہ کونسلر کی ٹیم تھی اس کے اوپر ٹاون ناظم یا ضلعی ناظم ہوا کرتے تھے اس وقت اختیارات کی بات کریں تو صیحح معنی میں نچلی سطح تک پہنچ گئے تھے۔ مگر یہ نظام کسی طرح چل سکتا تھا۔ کیونکہ اس نظام نے صوبائی اور قومی اسمبلی کے اراکین کو غیر فعال کر دیا تھا اب ان کے سامنے کوئی ہاتھ جوڑے کھڑا نہیں تھا کہ سائیں، حضور، سرکار، ہمارے علاقے کی سٹرک بنوا دو ہمارے علاقے میں پینے کے پانی کی لائن لگوا دو۔ سب سے اہم بات اس وقت اداروں میں کرپشن 15 سے 20 فیصد تک محدود تھی مگر اب ذرائع کے مطابق 40 سے 45 فیصد تک پہنچ گئی ہے تو عوام سمجھ لے اگر 100 روپے کا کوئی کام ہے تو 45 روپے صرف کام لینے میں اور اس پورا کرنے کے بعد پیسے لینے میں لگ جاتا ہے باقی بچے 55 روپے اس میں کام بھی کرنا ہے اور ٹھیکدار نے اپنا منافع یعنی (profit) بھی نکلنا ہے کیا کام کرے اور کوالٹی ہو گی آپ لوگ خود اندازہ لگا لیں
مجھے نہیں پتہ کراچی کی حالت کس طر ح صیح ہوگی اور کون کرے گا چاہے اب آرٹیکل 149، 140 اےیا 190 لگائیں مگر اس وقت ہم کراچی کے شہری بہت اذیت اور زہنی دباو میں ایک ایک دن گزر رہے ہیں۔