1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ایاز رانا/
  4. کشمیر اور ایشیا کا چوہدری بننے کا خواب

کشمیر اور ایشیا کا چوہدری بننے کا خواب

جغرافیائی، اقتصادی، ثقافتی، مذہبی اور لسانی رشتوں سے ریاست جموں وکشمیر کو پاکستان میں شامل ہونا چاہیے تھا کیونکہ ریاست کی 80 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ (بھارت) انڈیا کے ساتھ کشمیر صرف پٹھانکوٹ، کٹھوعہ اور جموں کے راستے منسلک ہے اور اس کی سرحد کی لمبائی کشمیر کے ساتھ صرف پچاس میل ہے۔
جبکہ پاکستان کے ساتھ اس کی سرحد کی لمبائی 384 میل ہے اگر کشمیر کے محل وقوع کی بات کی جائے تو اس کے جنوب اور مغرب (south and west) پاکستان اور شمال (north) میں چین اور روس مشرق میں تبت اور جنوب مشرق (south east) میں بھارت واقع ہیں۔ ریاست کا کل رقبہ total area) 84000) مربع میل (square miles) ہے۔ کچھ تاریخی پس منظر ایسا ہے کہ1587 میں مغل بادشاہ اکبر اعظم نے کشمیر کو اپنی سلطنت میں شامل کیا تھا
1752 میں افغانوں نے اس پر قبضہ کر لیا
1819 میں پنجاب کے سکھ حکمران رنجیت سنگھ نے کشمیر پر قبضہ کر لیا۔
سکھ حکومت کے خاتمے کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے کشمیر پر قبضہ کر لیا اور 1846 میں اس کمپنی نے کشمیر اور اس کے ملحقہ علاقہ جات کو ایک ڈوگرہ راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھوں 75 لاکھ روپے میں فروخت کر دیا۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ اس وقت لارڈ لارنس یہ بھی کہا تھا
کشمیری عوام کی مرضی کے خلاف ڈوگروں کے اختیار میں دینا ایک غیر منصفانہ اقدام تھا اور کشمیریوں کو بیچتے ہوئے یہ سمجھنا کہ وہ انسان نہیں لکڑی کے شہتیر ہیں
پاکستان اور بھارت کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ کشمیر کا مسئلہ ہے۔ آزادی کے وقت سے ریاست کشمیر کے عوام پاکستان کے ساتھ الحاق چاہیے تھے لیکن راجا ہری سنگھ نے 27 اکتوبر 1947 کو کشمیر کا الحاق بھارت کے ساتھ کردیا۔ اس کے بعد بھارتی افواج کشمیر میں داخل ہو گئیں اور آج تک ظلم اور بربریت کے پہاڑ مقبوضہ کشمیر کی عوام پر توڑے جا رہے ہے۔
بھارت اب جنوبی ایشیا اور بحرہند میں علاقائی سپر پاور بنے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ مگر پاکستان کے سامنے اس کی چودھراہٹ چل نہیں پہ رہی جب بھارتی حکمران طبقے کو محسوس ہوا کہ پاکستان اسے کسی صورت اسے لیڈر تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں تو اس نے پاکستان کی ریاست کے خلاف ایک نئی خفیہ جنگ کا آغاز کر دیا۔ جس کا مقصد پاکستان میں دہشت گردی کر کے اس کی معیشت کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا تھا اور کسی بھی طرح پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنا تھا۔
پلوامہ واقعے جسے خود ساختہ حملے کرکے نریندر مودی اور اس کے انتہا پسند ساتھی عالمی سطح پر پاکستان کو تنہا کرنا چاہتا تھا۔ اور کچھ عرصہ پہلے تک پاکستان کو عالمی سطح پر کئی مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ امر یکہ اور یورپی ممالک بھارت کے نئے ساتھی بن بیٹھے تھے اور انہوں نے پاکستان کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا تھا جب پاکستان امریکہ کی جنگ پاکستان کے اندر اب خود لڑ رہا تھا اور اس جنگ کی وجہ سے معاشی طور پر بہت نقصان اٹھا رہا تھا بھی اور ابھی تک اٹھا رہا ہے 2018 کے وسط میں امریکہ کو یہ احساس ہوا کہ بھارت تو مطلب کا دوست ہے اور مفادات کے خاطر بھارت گرگٹ کی طرح رنگ بدل سکتا ہے اور امریکہ کے اس خدشے کو بھارت عملی جامہ بھی پہنا دیا اس کی دو مثالیں سامنے آئی ایک بھارت نے امریکہ کے سب سے بڑے دشمن ایران سے تیل کی خرید جاری رکھنے کا اعلان کر دیا۔ جبکہ امریکہ نے ایران پر نئی پابندیاں لگا دی تھی اور دوسرا اعلان امریکی اسٹیبلشمنٹ کا سب سے بڑا دشمن روس سے میزائل خریدے نے کا معاہدہ کر رہا ہے امریکہ نے یہ قوانین بنا رکھے ہے کہ جو ملک ایران یا روس سے مخصوص سامان (تیل اور اسلحہ) خریدے گا اس کی کمپینوں پر تجارتی پابندیاں لگائی جائی گی۔
بھارت نے صدر ٹرمپ سے مطالبہ کیا بھارتی کمپنیوں کو ان پابندیوں سے استثنی دیا جاے اس مطالبے نے امریکی حکمران طبقے کو چوکنا کر دیا وہ بھارت کو دنیا میں سب سے اہم ہوجانے والے خطے انڈوپیسفک میں چین کا حریف بنانا چاہتے تھے مگر بھارتی حکومت حریفوں کے کیمپ یعنی ایران اور روس کا ساتھ چھوڑنے کو تیار نہیں تھی، بھارت کا گیم سمجھنے کے بعد امریکہ و یورپی ممالک اور بھارت کے مابین سر مہری (hidden part of anything) آنے لگی۔
اسی دوران صدر ٹرمپ نے افغانستان اور شام سے امریکی افواج واپس بلانے کا فیصلہ کر لیا تاکہ مالی اخراجات کم کیے جا سکیں۔ کیونکہ بیرون ممالک جنگوں کی وجہ سے امریکی بجٹ زبردست خسارے میں ہے۔ امریکہ افغانستان سے باعزت طور پر رخصت ہونا چاہتا ہے اسی لیے طالبان سے مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا اس طرح ایک دفعہ پھر امریکہ کو پاکستان کی ضرورت آن پڑی تاکہ وہ طالبان کو بات چیت پر آمادہ کرنے میں امریکہ کی مدد کرے۔
اسی دوران پاکستان میں بھی نئی حکومت آ گی اور عمران خان نئے وزیر اعظم بن گے نئی حکومت جوش و جذبے سے تمام اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنے لگی تاکہ ملک اور قوم کو درپیش مسائل اور چیلنجوں سے نکل سکے اور ایسی پالیسیاں تشکیل دی گئیں جو پاکستان کو معاشی مسائل سے چھٹکارا دلاسکیں اس حکمت عملی کے تحت نئے وذیر اعظم نے دوست ممالک کے پے در پے دورے کیے جو ماضی میں پاکستان کے حامی و مددگاررہے تھے ان دورں کا مثبت نتیجہ نکلا اور پاکستان عالمی سطح پر سفارتی تنہائی سے نکل آیا۔
امریکہ بھارتی حکمران طبقے سے ناراض ہے لہذا افغان مسئلے کی بات چیت کرتے ہوئے اس نے بھارت کو گھاس تک نہیں ڈالی۔ جنوبی ایشیا کا چوہدری بنے کا خواب دیکھنے والا بھارت کی عالمی سطح پر اتنی بڑے عالمی سیاست اور سفارتی گیم میں ایک عام کھلاڑی سے بھی بدتر حیثیت ہو گی ہے بھارتی حکمران طبقے اب اس بات کی فکر لاحق ہو گی ہے پاکستان نے ان کو دو کوڑی کا دیس بنا دیا ہے۔ مودی حکومت نے سر توڑ کوشش کی تھی کہ پاکستان کو عالمی سطح پر دہشت گرد ملک کے طور پر مشہور کیا جاے لیکن اب تو کھیل ہی الٹ گیا عالمی قوتیں اپنے معاملات حل کرانے یا تجارت کی خاطر پاکستان سے رجوع کر رہی ہیں جس کا اظہار صدر ٹرمپ اور عمران خان ملاقات سے واضح ہو گیا اور بھارت جنونی کیفیت میں مقبوضہ کشمیر کی ریاستی حثیت کو ختم کر کے اس کو اپنی وفاق کا حصہ بنا لیا جس کے بعد بھارت کی عالمی سطح زبردست تنقید کا سامنا ہے۔