1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ایاز رانا/
  4. لاک ڈاؤن، نیت خراب

لاک ڈاؤن، نیت خراب

اللہ تعالیٰ کے کرم سے پاکستان میں کرونا وائرس نے وہ تباہی نہیں مچائی جو اس نے امریکہ اور یورپی ممالک میں مچائی۔ اب تک کی خبروں کے مطابق پاکستان میں اس کا اثر کم ہوتا نظر آرہا ہے۔ (اللہ پاک ہم سب کو کرونا اور تمام آفتوں سے محفوظ فرمائے) آمین۔ آپ کو کچھ حقائق سے آگاہ کرنا چاھتا ہوں میں نے پچھلی تحریروں میں بھی منافع خوروں کا زکر کیا تھا۔ آج بھی کچھ حقائق آپ لوگوں تک پہنچانا ضروری سمجھتا ہو۔

آج کے جدید دور میں ہر آدمی کے پاس کمپوٹر یا لیپ ٹاپ موجود نہیں مگر پاکستان میں شہری آبادیوں میں اس کو استعمال کرنے والے بڑی تعداد میں موجود ہیں قصہ مختصر بڑی عید سے قبل میرے لیپ ٹاپ میں کچھ خرابی ہوئی تو میں نے آئی ٹی سے منسلک دوست کو اپنے لیپ ٹاپ کی بیماری بتائی اس نے کہا کوئی بڑی بیماری نہیں ہے ریم کا مسئلہ لگ رہا ہے وہ چیک کروا لو!!!! ہم اس کی سن کر قریب ہی ایک دکان پر گئے کہا بھائی اس کی ریم مل جائے گی اس نے کہا ضرور مل جائے گی اس دوکاندار کی عمر 20 سے 25 سال کے درمیان ہو گی اس نے لیپ ٹاپ دیکھ کر بولا مل تو جائے گی مگر 1800 روپے کی ہوگی میں دوست سے اس کی قیمت پوچھی ہوئی تھی اس بچارے کو لاک ڈاؤن کے بعد حالات اور مارکیٹ کا اندازہ نہیں تھا اس نے مجھے 500 سے 600 روپے قیمت بتائی تھی۔ مگر 1800 روپے سن کر میں نے کہا بھائی 500 کے 1800 سو روپے بہت زیادہ ہے اس نے فورا کہا ب سر جی لاک ڈاؤن اور کرونا وائرس کی وجہ سے سامان شارٹ ہے مل ہی نہیں رہا۔

میں بھی ڈر گیا میں نے کہا اچھا بھائی چیک تو کرو اس نے اپنی ریم لگائی اور ساتھ ساتھ حکومتی اقدامات پر تنقید کرتا رہا لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہ ہو گیا وہ ہو گیا میں چپ چاپ اس کی سنتا رہا ریم لگی مگر میرا لیپ ٹاپ آن نہیں ہوا وہ بولا سر جی اس کی پاور سپلائی کا مسئلہ ہے اس پر 5 ہزار کا خرچہ آئے گا اور تین دن کے بعد ملے گا، میں نے کہا بھائی بہت زیادہ ہے چھوڑ دو بعد میں دیکھیں گے اب اس نے بولنا شروع کیا آپ کو کس نے کہا ریم کا مسئلہ ہے میں کہا آفس کے آئی ٹی والے نے وہ بولا یہ آئی ٹی والے ہزاروں روپے کی تنخواہیں لیتے ہے پتہ کچھ نہیں ہوتا آپ کا مسئلہ کچھ اور ہے میں نے لیپ ٹاپ لیا وہ وہاں سے نکل گیا۔

پھر اس دوست کو فون کیا کہا بھائی یہ مسئلہ ہے اس نے کہا اچھا ایسا کریں لیپ ٹاپ کی بیٹری نکل کر آن کر کے دیکھیں چل رہا ہے ایسا ہی کیا تو وہ چل پڑا دوست بولا بھائی کچھ مسئلہ نہیں نئی بیٹری لگا لو میں کہا اب وہ کہاں سے ملے گی میں نے کہا یونی سینڑ۔ ناز سینڑ۔ کہا جاؤں اس نے کہا بھائی ریگل چلے جاؤ وہ ہول سیل مارکیٹ ہے سب ایمپورٹر بیٹھے ہے اب آپ یہاں کی بھی کہانی سن لیں۔ بیٹری ملی دو ہزار روپے کی اور لیپ ٹاپ بھی آن ہو گیا۔ سوچا آیا ہوں تو لگے ہاتھوں ریم بھی ڈال لو۔ ایک دوکان سے ریم پوچھی اس کے پاس بات کرنے کا ٹائم نہیں تھا بولا آپ اس کو خود لگا کے چیک کر سکتے ہو تو لے جاؤ 800 آٹھ سو روپے کی ہے مجھے وہ نوجوان یاد آیا جو یہ ہی سب کچھ مجھے 5 ہزار روپے میں 3 دن کے بعد دے رہا تھا۔ 2 ہزار کی بیٹری اور 8 سو کی ریم 28 سو روپے میں میرا لیپ ٹاپ تیار ہو رہا تھا۔

اب اس بھائی کے پاس ٹائم نہیں تھا میں گھومتا گھومتا ایک اور دوکان پر پہنچ گیا۔ یہاں پر جو شخص کاونٹر پر کھڑا تھا وہ بہت خوش اخلاق اور پکا سیلز مین تھا۔ اس نے بہت پیار سے بولا میں چیک کرتا ہوں کیا مسئلہ ہے وہ بھی بہت مصروف آدمی تھا سب لوگوں کو ڈیل کر رہا تھا ساتھ ساتھ مجھے بھی اس نے کہا سر جی ریم ہو یا دوسرا سامان سب شارٹ ہے اس کرونا کی وجہ سے مال مل ہی نہیں رہا اور جہاں سے مل رہا ہے وہ لوگ منہ مانگی قیمت مانگ رہے ہیں اس نے مجھے کہا آپ کو ریم 1 ہزار کی ملے گی میں کہا بھائی اوپر 8 سو میں چھوڑ آیا وہ بولا اچھا ٹھیک ہے اس نے دو تین ریم لگا کے چیک کی ایک میچ ہو گی اور اللہ اللہ کر کے میرا کام پورا ہوا اب میں اس کی باتیں سن رہا تھا بول رہا تھا کہ سر کرونا وائرس اورلا ک ڈاؤن کی وجہ سے ہول سیلرز نے مال مہنگا کر دیا میں کہا مت لو بولا سر جس کو ضرورت ہے وہ منہ مانگی قیمت دینے کو تیار ہے حکومت نے سب مال پر ڈیوٹی بڑھا دی ہے اور اب فلائٹ بھی بند ہے تو کھیپ کا مال بھی نہیں آ رہا۔ میں کہا کھیپ؟ بولا جی میں پھر پوچھا ابھی بھی کھیپ چل رہی ہے؟ بولا سر جی آپ کی سیٹنگ کیسی ہے سب اس کی کہانی ہے میں پوچھا یہ تو سب تو استعمال شدہ مال ہے بولا جی یہ سب مال امریکہ سے دوبئی آتا ہے اور ہم لوگ دوبئی سے لیتے ہیں بولا یہاں لوگ مل کر یعنی دو یا تین لوگ پیسے ملا کر دوبئی سے مال لاتے ہے پھر بولا سر جی اس کام میں بہت دو نمبری ہے سب ایمپورٹر کوئی نہ کوئی دو نمبری میں لگے ہوئے ہیں بولا چائنہ کا مال بھی آتا ہے خاص ایل سی ڈی ہم نئی کی کوئی گارنٹی نہیں دیتے اور استعمال شدہ مل جو امریکہ سے آتا گارنٹی تو اس کی بھی نہیں ہوتی بس گاہک کو یہ کہتے ہے یہ امریکہ میں استعمال ہوئی آئی ہے تو لوگ استعمال شدہ ہی لے جاتے ہے میں خاموشی سے اس کی باتیں سن رہا تھا۔ اس باتیں سن کر میرے ذہن میں صرف ایک بات چل رہی تھی ہم آٹا، چینی، پٹرول چوروں کی بات کر رہے ہیں۔ مگر 1 ماہ کے لاک ڈاؤن کے بعد سے لوگوں کے دلوں سے اللہ تعالیٰ کا خوف نکل گیا ہے ان کو بھی ایک دن اللہ کو جواب دینا ہے یہ بات دوکانداروں کے دل نکل گئی ہے ان کو یہ لگ رہا ہے بس جو مال موجود ہے سب اس سے کما لیں ان کو لگ رہا ہے پتہ نہیں کل موقع ملے یا نہ ملے 50 کی چیز 500 میں بیچ دو۔ یہ کہانی صرف ایک مارکیٹ کی نہیں ہے۔

میرے آپ کے ارگرد ایسے ہی لوگوں کو ایک پورا جال ہے۔ جو حکومت کو چینی اور آٹے کی قیمتوں پر برا بھلا بول رہے ہو گے مگر خود کیا کر رہے ہے وہ نظر نہیں آئے گا کیوں لاک ڈاؤن کے بعد سے سب کی نیتوں میں فتور آ گیا ہے۔