1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حمزہ خلیل/
  4. سنتالیس سال بعد

سنتالیس سال بعد

بھارت نے ایک صدارتی آرڈیننس کے تحت بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور35 اےکو ختم کر دیا جس کے بعد مقبوضہ جموں اور کشمیر کی خاص اہمیت ختم ہوگئی ہے۔ اب مقبوضہ وادی کا انتظام بھارقی قوانین کے تحت چلایا جائے گا۔ بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 اور35 اے کیا کہتا ہے، اس پر بات کرنے سے پہلے میں آپ کو 47 سال پیچھے لے چلتا ہوں۔
آج 1971 کا سال ہے، مشرقی پاکستان میں حالات کشیدگی کی انتہا کو چھو رہے ہیں، انڈین افواج مشرقی پاکستان میں داخل ہوچکی اور ڈھاکہ کا مکمل گھیراوں کیا جا چکا ہے۔ مشرقی پاکستان میں قتل عام جاری ہے، انڈین افواج مکتی باہنی کی صورت میں مشرقی پاکستان میں داخل ہوچکی۔ پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو "سب اچھا ہے" کا راگ الاپ رہے ہیں۔ پھر 16دسمبر 1971 کو سقو ط ڈھاکہ کی خبر آتی ہے۔ پاکستانی عوام ماتم میں مصروف ہے اور بدلا لینے کی غرض سے "کرش انڈیا" کی تحریک کا آغاز ہوتا ہے۔ لیکن اس تحریک کا کیا بنا؟ ہم نے انتقام کیسے لیا؟ ہمیں 71 کا دکھ کتنا یاد رہا؟
47 سال بعد 2019 میں حالات پہلے جیسے نہیں لیکن کچھ چیزوں میں مماثلت نظر آتی ہے۔ مشرقی پاکستان میں کچھ ٹھیک نہیں تھا لیکن عوام کو لا علم رکھا گیا۔ نریندر مودی نے وزارت اعظمٰی کے منصب پر بیٹھ کر اپنی پا لیسیوں کا اعلان کیا جس میں کشمیر سے متعلق پالیسی بھی شامل تھی۔ اس کے بعد بھارت اپنی گروانڈ بنانے کے لئے مقبوضہ وادی میں حالات خراب کرتا رہا، لیکن ہم سو رہتے تھے۔ قانونی جنگ کے لئے بھارتی پالیمنٹ آئین میں ترمیم کے حوالے سے بحث کرتی رہی اور ہم پھر بھی سو رہے تھے۔ پھر 4 اگست 2019 کو ہمارا میڈیا اور حکمران ماتم میں مصروف ہوگئے۔ بھارت کے آئین میں ترمیم کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کر چکی، کشمیر کی کہانی عملی طور پر ختم ہوچکی ہے۔ ہمارا میڈیا 4 اگست سے پہلے خاموش تھا اور اب یہ اچانک سے ماتم میں مصروف ہو گیا ہے۔ کچھ دن سیاست دانوں کے بیانات اور سیاسی و مذہبی جماعتوں کے جلسے جلوس نکلے گے اور پھر ہم اپنے کاموں میں مصروف ہو جائے گے۔
بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 بھارتی ریاست کے ساتھ ریاست جموں و کشمیر کو جوڑتا ہے اور اسے یہ آزادی دیتا ہے کہ برٹش راج سے آزادی کے بعد یہ دوسری ریاستوں کی طرح پاکستان اور بھارت جس میں شامل ہونا چاہے، ہوسکتا ہے۔ یہ آرٹیکل 1949 میں عمل میں آیا جس کے بعد ریاست جموں و کشمیر ہندوستانی قوانین سے مستثنی قرار پائی۔ اس آرٹیکل کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو اس بات کی آزادی حاصل تھی کہ وہ فنانس، دفاع، خارجہ امور اور مواصلات کے علاہ تمام معاملات میں خود قانون سازی کرسکتی ہے۔ جس کے بعد ریاست جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی نے اپنا قانون پاس کیا جس میں یہ پابندی عائد کی گئی کہ وادی میں دوسری قومیت والا باشندہ زمین نہیں خرید سکتا، ان کا اپنا جھنڈا بنا اور قومی ترانہ بھی ترتیب دیا گیا۔
1954 میں آرٹیکل 370 کو جاری رکھنے کے لئے ایک صدارتی حکم نامے کے تحت آرٹیکل35اے کو متعارف کروایا گیا۔ اس آرٹیکل کے تحت مقامی ذمہ دار ادارے کو اس بات کا اختیار دیا گیا کہ وہ ریاست کے مستقل باشندوں کی تعریف کریں۔ یہ آرٹیکل اس بات کی ضمانت بھی دیتا ہے کہ ریاست میں کوئی غیر کشمیری مستقل طور پر آباد نہیں ہوسکتا، زمین نہیں خرید سکتا، سرکاری ملازمت نہیں حاصل کرسکتا اور کسی غیر کشمیری کو تعلیم کے لئے اسکالرشپ نہیں مل سکتی۔ اس آرٹیکل کے تحت اگر کوئی کشمیری عورت کسی غیر کشمیری سے شادی کرتی ہے تو اس عورت کو بھی یہ حق حاصل نہیں رہتا کہ وہ کشمیر میں جائیداد خرید سکے اور یہ حق اس کے بچوں کو بھی حاصل نہیں ہوتا۔
بھارتی آئین میں ترمیم کا ایک باقاعدہ طریقہ کار ہے۔ بھارتی آئین لچکدار بھی ہے اور بعض شقوں میں جزوی طور پر سخت بھی ہے۔ آئین کے کچھ حصوں میں ترمیم پر غیر ضروری پابندیا ں بھی لگائی گئی ہے۔ آئین میں ترمیم کا آغاز پارلیمنٹ کے کسی بھی ایوان میں بل پیش کرنے سے کیاجاسکتا ہے۔ اس کے بعد دونوں ایوان کے کل ارکان کی اکثریت سے اس بل کی منظوری لازم ہے۔ ووٹنگ میں حصہ لینے والے ارکان کی تعداد پارلیمنٹ کے کل ارکان کی تعداد سے دو تہائی سے کم نہیں ہونی چاہیے۔ اس کو اسپیشل میجورٹی کہا جاتا ہے۔ اگر دونوں ایوان کسی بل پر متفق ہو تو پھر ان کا مشترکہ اجلاس بلانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مطلوبہ اکثریت جب کوئی بل پاس کرلیتی ہے تو پھر اس کو حتمی منطوری کے لئے صدر مملکت کے پاس بجھوایا جاتا ہے۔ تاہم بل کو پیش کرنے سے اس کی حتمی منظوری تک وقت کے دورانیہ کے حوالے سے آئین میں کوئی شق موجود نہیں ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارتی آئین میں ترمیم کا مسئلہ کشمیر پر کیا اثر پڑتاہے۔ بھارتی آئین کی یہ دو شقیں نہ پہلے پاکستان کے لئے قابل قبول تھی اور اب ان کی ترمیم بھی پاکستان کے لئے کوئی خاص معنی نہیں رکھتی لیکن سوال یہاں بھارتی ترمیم نہیں بلکہ اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات ہے۔ بھارتی آئین میں ترمیم کے فوری بعد بھارتی پریس میڈیا میں کشمیر کے لئے صوبے کا لفظ استعمال ہو نا شروع ہو چکا ہے۔ بھارت آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو اپنے اس خود ساختہ صوبے کا حصہ قرار دے رہا ہے۔ بھارتی آئین کی ترمیم کے بعد بھارت کی طرف سے مقبوضہ وادی میں رہائشی سکیموں کے اجراء کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ اب ہندوؤں بڑی تعداد میں مسلم اکثریتی مقبوضہ وادی میں زمین کی خرید کریں گے اور سرکاری ملازمتیں حاصل کریں گے۔ بھارت کی طرح مقبوضہ وادی میں بھی ہندوؤں مسلم فسادات ہوگے جس کے لئے اضافی دس ہزار بھارتی افواج پہلے ہی مقبوضہ وادی میں داخل کی جا چکی ہے۔
بھارت کا یہ اقدام اسرائیلی ماڈل کے تحت ہے۔ اسرائیل نے 1967 کی جنگ میں مصر کے علاقے "گولان وادی" پر قبصہ کر لیا تھا اور بعد ازاں اس کو اپنا علاقہ قرار دے دیا۔ تمام عرب ممالک اور عالمی پریشر کے باوجود اسرائیل اس وادی سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹا اور بعد ازاں 2019میں امریکی نے اس وادی کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کر لیا۔
پاکستان بے شک مصر نہیں لیکن حالات میں کچھ مماثلت پائی جاتی ہے۔ مصر اسرائیل کے ساتھ دو جنگوں کے بعد بدترین معاشی مسائل کا شکار تھا۔ معاشی بدحالی کو دور کرنے کے لئے مصر نے آئی ایم ایف سے قرضے لینے شروع کئے اور یہ قرضے اور ان پر سود اتنا زیادہ ہو چکا تھا کہ مصر ی معیشت تو کھڑی ہو گئی لیکن ان کے ملک میں اپنا ایک پیسہ نہیں تھا۔ تمام گردشی رقم آئی ایم ایف اور اس پر مشتمل سود کی تھی، اس پریشانی میں مصری حکمرانوں نے امریکی چوکھٹ پر سجدہ کیا اور گولان سے دستبرداری کی شرط پر امریکی نے آئی ایم ایف کا تمام قرصہ معاف کروا دیا۔
پاکستان نے حال ہی میں آئی ایم ایف سے 6 ملین کا قرضہ لیا، اس سے پہلے پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی واچ لسٹ میں شامل کیا گیا جس کا فیصلہ اکتوبر میں آنے والا ہیں۔ ایک عالمی فیصلے میں پاکستان کو 6 ملین کا جرمانہ ہو چکا ہے۔ مطلب پاکستان آئی ایم ایف سے 6 ملین لے کر اس کو جرمانے کے طور پر ادا کرنے جا رہا ہے۔
پاکستان کی تاریخ پاک افواج کی جان نثاری اور حکمرانوں کی غداری سے بری پڑی ہے۔ ہمیں اپنی تاریخ کے ہر اہم موڑ پر کسی حکمران کی غداری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بھٹو خاندان باحیثت مجموعی غداری میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا، میں اس موضوع پر پھر کسی کالم میں تفصیل سے بات کروں گا۔
پاکستان اور بھارت کے تشویش ناک حالات کے باوجود چین اور ترکی کے علاوہ کسی بھی طرف سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ عرب ممالک ہمیشہ کی طرح اپنی بھارت نواز پالیسی پر قائم ہے۔ مجھے یہاں شہید سہروردی کا ایک تاریخی جملہ یاد آتا ہے۔ بھارت کے ساتھ حالات خراب تھے اور سہروردی شہید ڈھاکہ (مشرقی پاکستان) میں ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے، ان سے ایک نوجوان نے پوچھا کہ حالات بہت خراب ہے لیکن عرب ممالک کا کوئی کردار نظر نہیں آتا اس کی کیا وجہ ہے۔ سہروردی شہید نے تاریخی جملے ادا کئے، آپ نے کہا " آپ چاہے جتنے بھی صفر جمع کرلے، صفر صفر ہی رہتا ہے"
میں اپنے کالم کے اختتام قرآن حکیم کی ایک آیت سے کرتا ہوں۔ اللہ سبحان و تعالیٰ قرآن حکیم میں فرماتے ہیں "اللہ کی راہ میں نکلو، چاہے ہلکے ہو یا بھاری" ایک اور جگہ ارشاد فرمایا" اے لوگوں! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں کی خاطر نہیں لڑتے جو کہتے ہیں کہ اے اللہ !ہمیں اس وادی سے نکال کہ جس کے حکمران ظالم ہے"