1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حمزہ خلیل/
  4. آخری سیلوٹ

آخری سیلوٹ

میکن میکنزی نامی جہاز 14 اکتوبر 1858 کو رنگون پہنچا تھا۔ یہ 36 افراد کا قافلہ تھا جو مردوں اور عورتوں پر مشتمل تھا۔ اس وقت رنگون کا انچارج نیلسن ڈیوس تھا۔ اس نے ان افراد کو وصول کیا اور وصولی کی رسید لکھ کر دی۔ وہ ان افراد کو اپنے ساتھ لے کر اپنی محل نما رہائش گاہ میں آگیا۔ ان 36 افراد میں سے ایک بیمار بوڑھا بھی شامل تھا۔ نیلسن کو اس بوڑھے کے شیان شان رنگون میں کوئی جگہ نہیں لگی چنانچہ اس نے ان کو اپنے گھر رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے اپنا گیراج خالی کروایا اور 36 افراد کو اس میں قید کردیا۔ یہ 7 نومبر 1862 کا دن تھا جب ان 36 افراد میں سے ایک عورت نے، جو کہ خادمہ تھی، نیلسن کے دروازے پر دستک دی، اس دستک سے لگ رہا تھا کہ یہ گھبرائی ہوئی ہے۔ اندر سے اردلی نے برمی زبان میں اس بدتمیزی کی وجہ پوچھی۔ خادمہ نے ٹوٹی پھوٹی برمی زبان میں بتایا کہ اس بوڑھے شخص کا سانس اکھڑ رہا ہے۔ اردلی نے جواب دیا کہ صاحب اس وقت کتے کو کنگھی کررہے ہیں اور وہ ان کے آرام میں خلل نہیں ڈال سکتا۔ اس کا یہ جواب سن کر خادمہ نے اونچی آواز میں رونا شروع کردیا۔

اس کہانی کو آگے بڑھانے سے پہلے کچھ احوال پاکستان کے الیکشن کا بیان کرتے ہیں۔ پاکستان میں جنرل الیکشن 25 جولانی 2018 کو منعقد ہوگے۔ 2017 میں نادرا کی نئی پالیسی کے مطابق 18 سال کی عمر تک پہنچنے والا ہر شہری جب شناختی کارڈ بنوائے گا تو اس کااندراج ووٹنگ لسٹ میں بھی کردیا جائے گا اس کے لئے کوئی علیحدہ سے درخواست دینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ حکومت بنانے کے لئے کسی بھی پارٹی کے لئے قومی اسمبلی کی 342 سیٹیس میں سے 137 سیٹوں پر کامیاب ہونا لازمی ہے۔ ترتیب کے لحاظ سے یہ پاکستان کا تیرواں الیکشن ہے۔ الیکشن کے حوالے سے پاکستانی عوام تین طبقات میں تقسیم ہے۔ ایک طبقہ موروثی سوچ کا ہے۔ جو جس پارٹی سے تعلق رکھتا ہے وہ تمام حقیقتوں کے باوجود بس اسی جماعت کو ووٹ دے گا۔ دوسرا طبقہ اس سوچ کا ہے کہ جو حکمران عوام کو دو وقت کا کھانا مہیا کریں گا عوام بس اسی کو ووٹ دے گی اور تیسرا طبقہ وہ ہے جن کو الیکشن ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ عام الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ عام عوام کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کے اوپر حکمران کون ہے؟ ان کا تعلق اس بات سے ہے کہ ان کا کچن کس طرح چلے گا۔ عوام کا اپنے حکمرانوں سے مایوسی کا یہ عالم کس بناء پرہے؟ اس کا جواب ہمیں تاریخ کے ابواب میں سے مل جاتا ہے، میں اپنی اوپر والی کہانی کی طرف واپس آنے سے پہلے اس کا تھوڑا پس منظر بیان کروں گا۔ اوپر جس بوڑھے شخص کا قصہ بیان کیا جارہا ہے اس کا نام بہادر شاہ ظفر تھا، یہ ہندوستان کا آخری مغل بادشاہ تھا۔ یہ 30 ستمبر 1837 کو 62 سال کی عمر میں منصب بادشاہی پر جلوافیروز ہوا۔ اس کی تاج پوشی کی تقریب دہلی کے لال قلعے میں منعقد کی گئی۔ دہلی اس وقت بھی ہندوستان کا درالحکومت تھا۔ اس محفل میں شامل ہونے کے لئے ہندوستان کے دور دراز کے علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ تاج پوشی کی یہ تقریب سات دن تک جاری رہی۔ یہ دور مغل سلطنت کا آخری دور تھا، ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان میں اپنے مقاصد حاصل کر چکی تھی۔ اس کمپنی کو 1600 میں تاج برطانیہ سے انگلستان سے باہر تجارت کی اجازت ملی۔ 1603 میں اس کمپنی نے ہندوستان میں اپنا کاروبار شروع کیا اور 1857 تک یہ ہندوستان پر قابض ہوچکی تھی۔ یہ ایک تجارتی کمپنی تھی لیکن یہ اپنا کاروبار دو طریقوں سے چلاتی تھی، ایک تو روائتی تجارت اور دوسرا، ان کی نجی مسلح افواج بھی تھی جو ان کے مفادات کا تحفظ کرتی تھی۔ جہاں کوئی مقصد تجارت سے حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا تھا وہاں طاقت کا استعمال کیاجاتا تھا۔ ہندوستان کی عام عوام کی طرف سے اس کمپنی کے خلاف کوئی خاص مذاہمت دیکھنے کو نہیں ملی۔ عوام کی اس عدم دلچسپی کی وجہ ان کے اوپر برسوں سے حکومت کرنے والے بادشاہوں کا رویہ تھا۔ آخری مغل بادشاہ تک ہندوستان میں مہنگائی عروج پر تھی۔ انصاف ناپید ہوچکا تھا، جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون لاگو تھا۔ بادشاہ کے من پسند لوگوں کو نوازا جاتا تھا۔ ہر شہر میں اپنی اپنی کالونیاں قائم ہوچکی تھی۔ عام عوام کو اشیاء خوردونوش پر بھاری ٹیکس ادا کرنا پڑتا تھا۔ غریب، غریب تر اور امیر، امیر تر ہوتا جارہا تھا۔ ہندوستان کے اکثر علاقوں میں حکومتی رٹ ختم ہوچکی تھی۔ طاقتور کمزور کو دبا لیتا تھا۔ ہندوستان کے دوسرے مماملک سے تعلقات کمزور تھے۔ عوام کے خون پسینے سے نچوڑا ہوا پیسہ حکمران اپنی عیاشیوں پر خرچ کررہے تھے۔ فحاشی و عریانی عروج پر تھی۔ ان تمام عوامل کی وجہ سے عوام کی ساری توجہ دو وقت کی روٹی کمانے پر رہتی تھی۔ میں یہاں پاکستان کے ماجودہ حالات نہیں بیان کررہا، ان کا آپس میں مل جاتا محض قدرتی عمل ہے۔ یہ وہ حالات ہے جن کی وجہ سے ہندوستان کی عوام نے اپنے حکمرانوں سے بددلی کا مظاہرہ کیا اور ایسٹ انڈیا کمپنی ملک پر قابض ہوگئی۔ پاکستان میں بھی اس وقت بہت سے بیرونی کمپنیاں اپنے فرائص سرانجام دے رہی ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا کے تقاضے بھی بدل چکے ہیں۔ ان کمپنیوں کے بارے میں پھر کسی کالم میں بات کریں گے۔

اب میں اوپر والا قصہ مکمل کرتا ہوں۔ خادمہ کے زورزور سے رونے کی آواز نیلسن تک پہنچ گئی تھی وہ غصہ میں باہر آیا۔ خادمہ نے نیلسن کو دیکھا تو وہ اس کے پاؤں پڑگئی وہ اس بوڑھے شخص کے لئے گیراج کی گھڑکی کھلوانا چاہتی تھی۔ بوڑھا شخص موت سے پہلے آزاد اور کھلی فضا میں ایک سانس لینا چاہتا تھا۔ نیلس نے اپنا پسٹل اٹھایا، گارڈ کو ساتھ لیا اور گیراج میں داخل ہوگیا۔ اس بوڑھے شخض کی آخری آرام گاہ کے اندر بدبو، موت کا سکوت اور اندھیرا تھا۔ اردلی لیمپ لے کر بادشاہ کے سرہانے کھڑا ہوگیا۔ نیلسن آگے بڑھا، بادشاہ کا کمبل آدھا بسترپر اور آدھا زمین پر تھا۔ اس کا ننگا سر تکیے پر تھا لیکن اس کی گردن ڈھلکی ہوئی تھی۔ اس کی آنکھوں کے ڈھیلے پپوٹوں کی حدود سے باہر ابل رہے تھے۔ گردن کی رگیں پھولی ہوئی تھی اور خنک زرہ ہونٹوں پر مکھیاں بھنبھنا رہی تھی۔ نیلسن نے لواحقین کو بلانے کا حکم دیا۔ لیکن لواحقین میں تھا ہی کون؟ ایک شہزادہ جوان بخت اور دوسرا اس کا استاد حافظ محمد براہیم دہلوی۔ انہوں نے بادشاہ کو غسل دیا، کفن پہنایا اور نمازے جنازہ ادا کی گئی۔ تدفین کا مرحلہ آیا تو سارے رنگون میں دو گز زمین دستیاب نہ تھی۔ نیلسن نے سرکاری رہائش گاہ کے احاطے میں قبر کھدوائی اور وقت کے بادشاہ کو یہی دفن کردیا۔ استاد حافظ محمد ابراہیم دہلوی نے جوتے اتارے اور بادشاہ کی قبر کی پائیتنی میں کھڑا ہوگیا۔ سورۃ توبہ کی تلاوت شروع کردی۔ جسے سن کر نیلسن ڈیوس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس نے غریب الوطن قبر کو آخری سیلوٹ پیش کیا۔