1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حمزہ خلیل/
  4. چند لوگ

چند لوگ

ایک بار حضرت عمرفاروق بازار میں سے گزر رہے تھے، وہ ایک شخض کے پاس سے گزرے جو دعاء کر رہا تھا "اے اللہ! مجھے اپنے چند لوگوں میں شامل کر، اے اللہ! مجھے اپنے چند لوگوں میں شامل کر"حضرت عمر نے اس سے پوچھا، یہ دعا تم نے کہاں سے سیکھی؟وہ بولا، اللہ کی کتاب سے، اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے: "اور میرے بندوں میں صرف چند ہی شکر گزار ہیں" (القرآن 34:13) حضرت عمر فاروق یہ سن کر رو پڑے اور اپنے آپ کو نصیحت کرتے ہوئے بولے "اے عمر! لوگ تم سے زیادہ علم والے ہیں، اے اللہ مجھے بھی اپنے چند لوگوں میں شامل کر"

انسان دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک وہ جو کسی مقصد یا تحریک میں شامل ہوتے ہیں تو اسے منزل مقصود تک پہنچا کر دم لیتے ہیں اور دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو کامیابی کے بعد کسی تحریک میں شامل ہوتے ہیں۔ چند لوگ ہمیشہ سے منفرد مقام رکھتے ہیں جو کسی بھی مقصد، نظریے یا عقیدے میں آغاز سے ہی شامل رہتے ہیں اور اس کا ساتھ نہیں چھوڑتے، اس کو اپنی صداقت اور یقین سے روشن بھی رکھتے ہیں۔ تاہم اس میں جس صبر، توکل، یقین اوراستقامت کی ضرورت ہوتی ہے، یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کیونکہ انسان اپنی فطرت میں ہی جلدباز رہا ہے۔ توکل سے کیا مراد ہے؟ کسی ذات پر ہر طرح کا یقین کرنا اور اللہ سبحان و تعالٰی سے زیادہ کون سی ذات ہے جو یہ حق رکھتی ہےاور یہ محبت کے سواء ممکن نہیں ہوتا۔ لیکن ہمیں اللہ پر صرف اسی وقت پیار آتا ہے جب وہ ہمیں اچھی ملازمت عطاء کردیں، جب وہ ہمیں ہمارے کاروبار میں خوب منافع پہنچا دیں، جب وہ ہماری شادی ہماری مرضی سے کروادیں یا اس وقت جب وہ ہمیں اولاد عطاء کردیں۔ ہمیں اللہ صرف اس وقت اچھا لگتا ہے جب تک وہ ہماری خواہشات پوری کرتا رہتا ہے۔ ہم دعا کرتے ہے تو اللہ کو گائیڈ کررہے ہوتے ہیں ہم میں سے چند لوگ ہی ہے جو اس سے طلب کرتے ہیں۔ زیادہ تر اللہ کو سمجھا رہے ہوتے ہیں کہ کیا ٹھیک ہے اور کیا غلط۔ ہمیں اللہ صرف اس وقت تک اچھا لگتا ہے جب وہ ہماری گائیڈ لائن پر ہماری منشاء کے مطابق عمل کرتا رہتا ہے۔ جہاں اللہ کی مرضی اور ہماری مرضی آپس میں ٹکرا جاتی ہے اس وقت ہمیں لگتا ہے کہ اللہ ہمارے مدمقابل کھڑا ہے۔ یقین کی اگر آخری حد دیکھنی ہو تو 313 لوگوں میں دیکھے جب بنی پاک ﷺ نے دعا کی تھی " اگر آج یہ مٹھی بھر مسلمان نہ رہے تو قیامت تک تیرا نام لینے والا کوئی نہیں ہونگا" پھر اللہ اس یقین اور توکل کا کیا صلہ آتا کرتا ہے؟ ان 313 کو کیا مقام ملا؟ ان کا مقام تھا "اللہ ان سے راضی ہوا"

ہمارے معاشرے میں ایک چیز عام ہے، ہم دوسروں کو کاپی کرتے ہے، آپ اگر کسی کو کسی غلط کام سے روکے تو آگے سے جواب ملتا ہے کہ یہ تو آج کل عام ہے، یہ تو سب کر رہے ہیں۔ ہمارے معاشرے کا یہ معیار ہے کہ کسی کام پر لوگوں کی اکثریت جمع ہوجائے تو یہ ہمارے نزدیک جائز ہوجاتا ہے۔ اب ہم قرآن مجید کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ اکثر لوگوں کا کیا حال ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:-

"اکثر لوگ نہیں جانتے" (7:187)

"اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے" (2:243)

"اکثر لوگ ایمان نہیں لائے" (11:17)

"زیادہ تر شدید نافرمان ہیں" (5:59)

"زیادہ تر جاہل ہیں" (6:111)

"زیادہ تر راہ راست سے ہٹ جانے والے ہیں" (21:24)

ہمارے معاشرے میں بڑائیاں بہت تیزی سے پھیل رہی ہے۔ ہم ایک دوسرے کو دیکھ کر رنگ پکڑتے ہیں۔ دوسروں کو وجہ بناء کر گناہ میں شامل ہوجاتے ہیں۔ لیکن بہت کم لوگ ایسے ہیں جو عقل سے کام لیتے ہیں اور اللہ کی حدود کا خیال رکھنے والے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کو پرانی سوچ کا مالک سمجھا جاتا ہے۔ ایسی سوچ کے حامل لوگوں کے متعلق قرآن کیا کہتا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:-

"میرے تھوڑے ہی بندے شکر گزار ہیں" (34:13)

"اور کوئی ایمان نہیں لایا سوائے چند کے" (11:40)

گزرتے وقت کے ساتھ انسان تباہی کی طرف جا رہا ہے اور اپنی تباہی کا سامان جمع کررہا ہے۔ ہم ہر طرح کی بڑائیوں میں مبتلا ہے اور اس پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ اب بڑائیوں نے بھی انداز بدل لیا ہے زیادہ تر گناہ فیشن کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ ہم اپنی موت سے بے خبر لذت دنیا کمانے میں مبتلا رہتے ہیں۔ فحاشی و عریانی ہمارے معاشرے کا امتیاز ہے۔ ہم اگر عقل اور شعور سے کام لینے والے ہو تو ہمارے لئے یہ آیت مبارک ہی کافی ہے:-

"مزے کے باغات میں پچھلوں میں زیادہ ہیں اور بعد والوں میں تھوڑے" (14-56:12)