1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حمزہ خلیل/
  4. گمنام بچہ

گمنام بچہ

فاکس چیس، فلاڈیلفیا، امریکہ میں واقع جنگل سے ملحقہ سٹرک پر ایک عالب علم گاڑی میں جارہا تھا اس نے دیکھا کہ خرگوش بھاگ رہا ہے اور خود کو جھاڑیوں میں چھپانے کی کوشش کررہا ہے۔ طالب علم کوحیرانی ہوئی کہ جنگل کے اس علاقےمیں ایسے خون خوار جانور کیسے ہوسکتے ہیں جن سے خرگوش کی جان کو خطرہ ہو، اس نے تحقیق کی خاطر گاڑی روکی اور اس طرف چل پڑا۔ اس نے دیکھا کہ گٹے کے ایک ٹوٹے ہوئے ڈبے میں ایک کمبل نظرآرہا ہے اور یہاں جنگلی جانوروں کی موجودگی اس کو مشکوک بنارہی تھی۔ اس کمبل میں انسانی اعضاء موجود تھے۔ طالب علم خوف کے عالم میں یہاں سے واپس پلٹ آیا۔ یہ اطلاع پولیس تک ہپنچ گئی اور 26 فروری 1957 کو تحقیقات کا آغاز کردیا گیا۔ پولیس کا دعوہ تھا کہ جلد ہی اس کیس کا معمہ حل کر لیا جائے گا۔ یہاں سے برآمدہ شدہ لاش ایک بچے کی تھی، اس کی عمر قریب 3 یا 7 سال ہوگی۔ اس کا قد تین فٹ چھ انچ تھا اور اس کا وزن چودہ کلوگرام تھا۔ اس برہنہ لاش کو کئی ٹکٹروں میں تقسیم کرکے اس کی شناخت کو مجروع کیا گیا تھا۔ پولیس نے ابتدائی طور پر لاش کے فنگر پرنٹ حاصل کئے۔ ہر ممکنہ تشہیر کے باوجود پولیس کے ہاتھ اس سلسلے میں کوئی ثبوت نہیں لگ رہا تھا۔ اس کیس کے حوالے سے سماجی دباؤ میں روز بروز اضافہ ہونے لگا۔ پولیس نے تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا اور 270 پولیس اسٹیشنوں کو اختیارات منتقل کر دئے گئے۔ پولیس کو کچھ دنوں کے بعد ایک نیلی کیپ، ایک سکارف اور ایک رومال ملا، خیال کیا جا رہا تھا کہ ان چیزوں کا تعلق ممکنہ طور پر اس بچے کے ساتھ ہو سکتا تھا لیکن یہ چیزیں بھی کیس میں مددگار ثابت نہیں ہوئی۔ اس کے بعد پولیس نے اس بچے کے کچھ خیالی خاکے بھی جاری کئے لیکن کچھ ہاتھ نہیں لگا۔ 1960 میں "ریموٹوبرٹسن" نے اس کیس پر تحقیقات کا آغاز کیا اور اپنی ساری عمر 1993 تک اس کیس پر لگا رہا۔ اس نے ایک ماہر نفیسات سے رابطہ کیااور اس کے مشورے پر وقوعہ کے قریب کسی انسانی ٹھکانے کی تلاش شروع کی اور اس طرح وقوعہ سے 2۔ 5 کلومیٹر کے قریب ایک عارضی گھر کا سراغ ملا۔ اس گھر کی تلاشی لی گئی تو ریموٹو کو اس میں ایک ایسا ہی کمبل ملا جس قسم کے کمبل میں بچے کی لاش کو چھپایا گیا تھا۔ لیکن سامان کا مالک گھر کب کا چھوڑ چکا تھا۔ ریموٹو کا خیال تھا کہ اس بچے کا تعلق اس سامان کے مالک کی سوتیلی بہن سے ہوسکتا تھا۔ اس نے ممنکہ طور پر اس بچے کو مار کر اس کمبل میں لپیٹا اور جنگل میں پھینک دیا، تاکہ یہ موت حادثاتی معلوم ہو اوراس کی بہن جو کہ شاید اس بچے کی ماں بھی تھی، ایک ظالم ماں کے طور پر سامنے نہ آئے۔ لیکن ان خیالات کے باوجود پولیس اس بچے اور اس خاندان میں کوئی تعلق ثابت کرنے کے لئے کوئی ثبوت حاصل نہ کرسکی۔ 1998 میں فلاڈیلفیا پولیس کے تحقیقی شعبہ کے انچارج "ٹوم اگسٹن" اور کچھ ریٹائرڈ پولیس افسران نے اس خاندان کو تلاش کرلیااور ان سے تحقیقات کی لیکن اس سے معلوم پڑتا تھا کہ یہ خاندان نہ تو اس قتل میں شامل ہے اور نہ ہی اس بچےکا اس خاندان سے کوئی تعلق ہے۔ بعدازاں 2008 میں ڈی این اے ٹیسٹ سے بھی یہ بات ثابت ہوئی کہ اس عورت کا بچے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ فروری2002 میں ایک عورت نے اپنی شناخت چھپانے کی شرط پر کچھ یاداشتوں کو پولیس کے سامنے رکھا اس عورت کو انگلش کے لفظ "ایم" سے جانا جاتا ہے۔ اس عورت کا کہنا تھا کہ اس کی ماں نے 1954 کو ایک بچے کو خریدا / گود لیا، جس کا نام "جوناتھن" تھا۔ اس بچے کے ساتھ بعدازاں ماں کی طرف سے جسمانی اور جنسی تشدد کیا جاتا رہا اور یہ سلسلہ ڈیڑھ سال تک جاری رہا۔ ایک شام کو کھانا کھانے کے دوران اس بچے کی حالت غیر ہوگئی اور اس نے دستر خوان پر الٹی کر دی جس پر اس کی ماں تیش میں آگئی اور اس نے بچے پر بدترین تشدد کیا، اس کا سر اس وقت تک زمین سے پٹکتی رہی یہاں تک کہ بچہ نیم بیہوش ہو گیا، اس کو ہوش میں لانے کی غرض سے اس پر پانی بہایا گیا لیکن اس کی موت ہو چکی تھی۔ "ایم" کی ماں نے اس مردہ بچے کے جسم کو کاٹنا شروع کردیا، وہ جس انداز سے اپنے بالوں کو کاٹا کرتی تھی وہ اسی انداز سے بجے کے جسم کو کاٹ رہی تھی۔ پھر اس نے "ایم" کو مجبور کیا کہ وہ لاش کو "فاکس چیس" تک پہنچانے میں اس کی مدد کریں۔ "ایم" نے بتایا کہ جب وہ لاش کو مطلوبہ جگہ پر پہنچانے کے لئے گاڑی میں ڈال رہے تھے تو ایک موٹر سائیکل سوار نے ان کو دیکھ لیا تھا اوروہ جو کہ ساری صورتحال سے ناواقف تھا، مدد کے لئے ان کے پاس بھی آیا کیونکہ وہ سمجھ رہا تھا کہ یہ دو عورتیں سامان کو منتقل کررہی ہے۔ "ایم" کی ماں نے "ایم" سے کہا کہ وہ اس کے آگے کھڑی ہو جائے تاکہ وہ موٹرسائیکل سوار اصل حالات سے واقف نہ ہو اور اس کو چلے جانے کا بھی کہہ۔ "ایم" کی یہ سب باتیں کچھ حد تک سچ تو معلوم ہوتی تھی کیونکہ جب اس لاش کا پوسٹ مارٹم کیا گیا تھا تو اس کے معدے میں پکی ہوئی پھلیاں موجود تھی جبکہ اس کے فنگر پرنٹس سے پانی کے اثرات بھی ملے تھے۔ اس بچے کی موت بدترین تشدد کے بعد سانس روک جانے کی وجہ سے ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ پولیس نے یہ بات بھی نوٹ کی تھی کہ بچے کے جسم کے ٹکڑے کرنے والا کوئی تجربہ کار مجرم نہیں تھا یہ ایک کوشش تھی شناخت کو مجروع کرنے کی۔ 1957 کو دوران تفتیش پولیس کو ایک شخص بتایا تھا کہ لاش کو "فاکس چیس" کے جنگل میں لانے کے بعد گٹے کے ڈبے میں ڈالا گیا تھا۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود "ایم" کی باتوں پر اس وجہ سے شک کیا جاسکتا تھا کیونکہ وہ ماضی میں ایک نقسیاتی مریضہ رہی تھی اور اس کے اثرات آج بھی موجود تھے۔ اس کے علاوہ جب پولیس نے "ایم" کے اس وقت کے ہمسائیوں سے اس بات کی تصدیق کرنا چاہی تو ان کا کہنا تھا کہ "ایم" کے گھر کبھی کوئی بچہ رہا ہی نہیں۔ فرانزک لیبارٹری کے ایک رکن کا کہنا تھا کہ یہ لاش کسی لڑکے کی نہیں بلکہ ممکنہ طور پر لڑکی کی ہے کیونکہ اس کے بالوں کا اسٹائل لڑکیوں جیسا تھا لیکن ان کو کاٹ کر چھوٹا کیا گیا تھا اور اس کی پلکیں بھی لڑکیوں جیسی تھی۔ بعدازاں اس لیبارٹری کی جانب سے اس لاش کا جو خاکہ جاری کیا گیا تھا اس کی شکل بہت حد تک لڑکیوں جیسی تھی جس کے بال بھی لمبے تھے۔ 2016 میں دو لکھاریوں "جم ہیمفین" جس کا تعلق لاس اینجلس سے تھا اور دوسرا "لوئس رومانو" جس کا تعلق نیو جرسی سے تھا، ان کا یقین تھا کہ اگر "میمئس ٹینسی" کے علاقے میں کچھ خاندانوں کا ڈی این اے کیا جائے تو کیس کے حل کی کوئی صورت نظر آسکتی ہے۔ اکتوبر 2017 میں ڈی این اے کے کچھ ٹیسٹوں نے اس نظریہ کو بھی غلط ثابت کردیا۔ 21 مارچ 2016 میں نیشنل سنٹر فارمسنگ اینڈ اناڈینٹیفائیڈ پرسنگ سسٹم میں اس بچے کو بھی شامل کیاگیا۔ یہ ایک ایسا ڈیٹا بیس ہے جس میں نامعلوم اور گمشدہ لوگوں کا ریکارڈ مرتب کیا جاتا ہے جن کا تعلق امریکہ سے ہو یا یہ لوگ امریکہ میں نامعلوم ہوئے ہو۔ یہ سسٹم 2005 میں مرتب کیا گیا تھا اور اس وقت اس کے پاس 16، 080 کیس رجسٹرڈ ہے جبکہ 23 فروری 2014 کے اعدادوشمار کے مطابق 9723 کیسوں کو حل کر لیا گیا تھا۔ 2002 کے ایک سروے کے مطابق امریکہ میں ہر سال 800، 000 بچے لاپتہ ہوتے ہیں۔ 1957 میں قتل ہونے والے اس بچے کو "پوٹر" کے ایک میدان میں 1998 میں دفن کیا گیا، 41 سال تک اس کے جسم کے اعضاء سرد خانے میں پڑے رہے، اس کے ڈی این اے کی غرض سے اس کے دانتوں سے مواد لیا گیا کیونکہ اس کا باقی جسم کاٹنے، گل سٹر جانے اور جانوروں کی طرف سے نوچنے کے بعد استعمال کے قابل نہیں رہا تھا۔ اس کو دوسری دفعہ "آئیوی ہیل" قبرستان میں دفن کیا گیا جہاں اس کے لئے ایک بڑا پلاٹ عطیہ ہوا۔ اس دوسری تدفین میں لوگوں کی بڑی تعداد نے حصہ لیا اور اس کو میڈیا کوریج بھی حاصل رہی۔ اس کی قبر پر ایک بڑا پتھر نصب ہے جس پر "امریکہ کا نامعلوم بچہ" کے الفاظ کندہ ہے۔ امریکی ٹیلی ویژن کے مقبول پروگرام "امریکنز موسٹ وانٹیٹ" میں اس کہانی کو 3 اکتوبر 1998 اور 12 جولائی 2008 میں پیش کیا گیا۔ یہ گمنام بچہ جس کے بارے میں گمان ہے کہ یہ 1950 میں پیدا ہوا اور اس کو مخص 7 سال کی عمر میں 1957 کو قتل کردیاگیاتھا۔ یہ بچہ کون تھا، یہ کہاں سے آیا تھا، اس کا نام کیا تھا، اس کے ماں باپ کون تھے، اس کو کیوں اور کس جرم میں قل کیا تھااس کے بارے میں تاریخ خاموش ہے۔