1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حمزہ خلیل/
  4. ہراسیت

ہراسیت

میرا موضوع علی ظفر یا میشاء شفیع نہیں ہے۔ ان کا قصہ آج کل ہر طرف موضوع بحث ہے لیکن مجھے اس میں کوئی دلچپسی نہیں کیونکہ اگر آپ کسی کو اپنے ساتھ کھانے کی دعوت دیتے ہیں تو اس پر یہ اعتراض کرنا کہ اس نے نوالے زیادہ لیئے تھے یا بریانی کی بوٹی دوسرا کھا گیا تھا، یہ سب باتیں بیکار اور فضول ہوتی ہے۔ لیکن دکھ اس بات کا ضرور ہے کہ میڈیا سے منسلک افراد جو آگ ہمارے معاشرے میں لگا چکے ہیں وہ اب خود بھی اس میں جلنے لگے ہیں۔ میں آج کے کالم کی طرف آتا ہوں۔ اگر ہم مغرب کی بات کریں تو جنسی ہراسیت سے مراد ایسے رویے اور اقدام ہے جو دوسرے کو جنسی طور پر پریشان کرتے ہیں۔ جیسا کہ کسی کو جنسی ترغیب دینا، کسی سے جنسی خواہش کا اظہار کرنا، کسی کو زبانی یا جسمانی طور پر جنسی ہراساں کرنا یا ایسا ماحول بنانا جس میں ایک فرد خود کو قیدی محسوس کریں۔ جنسی ہراسیت میں کسی کے ساتھ زبردستی کرنا یا دوسرے کے لئے حالات خراب کرنا، یا دوسرے کو معاشی یا مالی طور پر پریشان کرنا شامل ہیں۔ جنسی ہراسیت کے حوالے سے دنیا کے تمام ممالک میں قوانین موجود ہے لیکن ان تمام قوانین کا اطلاق معمولی چھیڑنے، ہاتھ سے اشارے کرنے اور دوسرے معمولی جنسی واقعات پر نہیں ہوتا۔ قانون کے دائرے کار میں آنے کے لئے جرم کی شدت کا زیادہ ہونا لازمی ہے، یہاں تک کہ اس سے متاثر ہونے والا اپنی ملازمت کو چھوڑنے پر تیار ہوجائے یا اس کو ترقی کے لئے کسی قسم کی جنسی طلب کا سامنا کرنا پڑا ہو یا پر سکتا ہو۔ جنسی ہراسیت کی اصلاح سب سے پہلے 1973 میں استعمال کی گئی تھی جب "میری رو" نے اپنے پی ایچ ڈی کے ایک مکالے میں اس کو استعمال کیا تھا۔ میری رو"ماششٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی" سے پی ایچ ڈی کر رہی تھی اور اس نے محسوس کیا تھا کہ 1970 کے ادوار میں لڑکیوں میں یہ بات خاص طور پر موزوں بحث بنی ہوئی تھی۔ امریکہ میں جنسی ہراسیت کی روک تھام کے لئے قوانین کو اس وقت عملی شکل ملی جب 1970 اور 1980 کی دہائی میں خواتین کو اس چیز کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہ خواتین زیادہ تر افریکن امریکن تھی اور ان کا تعلق انسانی حقوق کی تنظیموں سے تھا۔

پاکستان میں خواتین کے تحفظ کا بل 2010 میں پاس کیا گیا۔ اس بل میں ہراسیت سے مراد ہے کہ " ناپسندیدہ جنسی تعمیل، جنسی خواہش کا اظہاریا دوسری زبانی یا تحریری یا کوئی جنسی رویہ، جنسی اجتماعی رویہ، کام کرنے کی کارکردگی کو متاثر کرنا یا وقت ضائع کرنا یا ماحول کو جارحانہ بنانا، درخواست دہندہ کو اس بات پر مجبور کرنا کہ وہ درخواست واپس لے لےیا ایسا موحول پیدا کرنا کہ کوئی اپنی ملازمت کو چھوڑ دے" اس ایکٹ کے تحت تمام اداروں کو اس بات کا پابند کیا گیا تھا کہ وہ تیس دن کے اندر اندر اپنے ادارے میں خواتین کے جنسی احتسال کے روک تھام کے لئے کمیٹی ترتیب دے گا۔ اس کمیٹی کے کم ازکم تین ممبرز ہونگے جن میں سے ایک کا خاتون ہونا لازمی ہے۔ اگر کوئی اس قسم کی درخواست اس کمیٹی کے کسی ممبر کے خلاف موصول ہوئی تو اس ممبر کو کمیٹی سے برطرف کردیا جائے گا اور اس کی جگہ نیا ممبر کمیٹی میں شامل ہوگا جو کہ اس ادارے کے باہر سے بھی ہوسکتا ہے۔ اس تمام انکوائری کی کاروائی کو خفیہ رکھا جائے گا۔

اوپر بیان کی گئی تحریری تعریفوں کو ایک طرف کر کے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کون سا معیار یا وہ کون سی باتیں ہے جو جنسی ہراساں کرنے کے زمرے میں آتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں اس حوالے سے اپنا اپنا معیار پایا جاتا ہے۔ اگر ہم مذہبی گھرانوں کی بات کریں تو پاکستان میں مذہبی گھرانے عام طور پر شدت پسندی کی طرف رائج ہے۔ ان میں جنسی ہراساں کرنے کا تصور نہیں پایا جاتا۔ ان خاندانوں میں عورت یا تو ساری عمرگھر کی چار دیواری میں قید رہتی ہے یا پھر غیرت کے نام پر قتل کر دی جاتی ہے۔ اس میں معمولی سے معمولی باتیں بھی شامل ہے جیسا کہ اگر کسی لڑکی نےشادی کے حوالے سے صرف اپنی پسندیدگی کا اظہار بھی کیا تو یہ چیز غیرت کے زمرے میں آتی ہے اور اس خاندان کے مردوں کو ان کے قتل کا سر ٹیفکیٹ مل جاتا ہے۔ یہ دراصل مذہبی روایات نہیں ہے بلکہ یہ جہالت کا اعلٰی معیار ہے۔ دوسرے نمبر پر ہمارے وہ گھرانے آتے ہیں جو دین و دنیا کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ تیسرے نمبر میں ہماری سوسائٹی کے ماڈرن خاندانوں کا شمار ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک مذہب صرف ان کی شناخت سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا کیونکہ ان کو کسی قسم کا فارم فل کرتے وقت مسلمان کے خانے میں ٹک کرنا پڑتا ہے۔ ان خاندانوں میں آزاد فطرت پائی جاتی ہے، یہ لوگ مذہب اور انسانیت کو علیحدہ علیحدہ سمجھتے ہیں اور انسانیت کاچرچہ کرتے پھرتے ہیں۔ مذہبی لوگوں اور ماڈرن لوگوں میں پائی جانے والے جنسی ہراساں کرنے کی اپنی اپنی تعریفوں سے صرف یہ دوسرا طبقہ متاثر ہوتا ہے جو کہ دین اور دنیا کو ساتھ ساتھ لے کر چلتا ہیں۔ آپ ماڈرن لوگوں کو جائزہ لیجیے۔ ان میں مخلوط محفلیں ایک روٹین کی بات ہوتی ہے۔ ان کی عورتیں مغربی لباس پہنتی ہے اور مردوں کے ساتھ ان کی دوستیاں باعث شرم نہیں ہوتی۔ ان خاندانوں میں بوئے فرینڈ اور گرل فرینڈ کا عام رواج پایا جاتا ہے۔ ان خاندانوں میں مرد اور عورت کا باہم ہاتھ ملانا اور گلے ملنا ایک معمول کی بات ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی حدود ہے جس کے بعد جنسی ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا جا سکتا ہے۔ اگر اوپر بیان کی گئی تعریفوں کی روشنی میں بات کی جائے تو ماڈرن سوسائٹی میں جنسی ہراسیت عام پائی جاتی ہے اور یہ ایک معمول کی روٹین ہے۔ کسی کو ذومعنی میسج کرنایا کال کرنا یا اشارے کرنا یا عمل کرنا یا حرکتیں کرنا یا کسی دوسری جنس سے ہاتھ ملانا یا گلے ملنا، یہ سب باتیں اوپر بیان کی گئی تعریفوں کی روشنی میں جنسی ہراسیت میں آتی ہیں۔ لیکن یہ سب باتیں ماڈرن سوسائٹی اور ہماری آج کل کی نئی نسل میں عام اور معمول کی بات سمجھتی جاتی ہے، ان کی اس قسم کی سو چ کوئی حیران کن بات نہیں ہے۔ آپ اگر آج کل کے ماڈرن اور انگلش سکولز کا جائزہ لے تو آپ کو سمجھ آجاتی ہے کہ معاشرے میں جنسی ہراسیت کی تعریف کیوں بدل گئی ہے۔ ہمارے معاشرے میں دو قسم کی خواتین کی تعداد زیادہ ہے، ایک قسم وہ ہے جن کی جنسی ہراسیت کی اپنی تعریف ہے اور دوسری قسم ان خواتین کی ہے جو جنسی طور پر ہراساں ہونے کے بعد خاموش رہنے میں بہتری سمجھتی ہے اور اس کی وجہ ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے بیمارذہن کے مرد ہے۔ ہماری انسانی حقوق کی تنظیموں کے قوانین اور آج کل کی موم بتی مافیاء کی سوچ اور جنسی ہراسیت کی تعریف ایک دوسرے کے متصادم ہے۔ آج کل کے سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا، الیکٹرونک میڈیاکے عہدیداران اور مالک جس میں زیادہ تعداد خواتین کی ہی ہے، یہ جس روش پر چل رہے ہے اور جو کچھ نشر کیا جارہا ہے، یہ سب کی سب باتیں جنسی ہراسیت کے زمرے میں آتی ہیں۔ ہم بلی اور چھیچھڑوں کو، شیر اور ہرن کو، آگ اور پانی کو ایک ساتھ کیسے چلا سکتے ہیں۔ عورتیں یہ کیسے تصور کر سکتی ہے کہ ان کو تو ہر طرح کی آزادی حاصل ہو لیکن مردوں کو حاصل نہ ہو؟ مرد یہ کیسے سمجھ سکتے ہیں کہ دوسروں کی بہن بیٹیوں کو تنگ کر کے ان کی اپنی بہن بیٹیاں محفوظ رکھ سکتی ہے۔ مرد اور عورتیں اسلام کی اپنی اپنی تعریفیں کیسے کرسکتے ہیں اور اسلام کی مکعمل تعلیمات میں نئی شقیں کیسے پیدا کی جاسکتیں ہیں۔ انسانی معاشرے میں کچھ حقوق سے دستبردار ہوکر ہی کچھ حقوق حاصل ہوتے ہیں لیکن ایسا جنگل میں ضرورہوتا ہے کہ جس کے جی میں جو آتا ہے وہ اپنی طاقت اور مرضی کے مطابق کریں۔ اس وقت ضرورت اس چیز کی ہے کہ خواتین کے تحفظ کے لئے قانون سازی میں سختی کی جائے لیکن معاشرتی روئے اور ہم اپنی اندر کی سوچ کو بدلے بغیر کوئی نتیجہ حاصل نہیں کرسکتے۔ اس معاشرے میں ہم نے رہنا ہے، اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے ہم کس قسم کا معاشرہ ترغیب دے گے۔