1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حمزہ خلیل/
  4. ہندوستان کمرشل بینک

ہندوستان کمرشل بینک

لاہور کا شمار برصغیر کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ ہر دور میں اس پر حکمرانی کے لئے مخالف قوتیں آپس میں ٹکراتی رہی۔ لاہور کا دل اندرون شہر کے تنگ گلیوں میں رہتا ہے۔ ایک وقت تھا، جب لاہور شہر بارہ دروازوں اور ایک موری پر مشتمل ہوا کرتا تھا۔ ہندوستان پر تاج برطانیہ کے قبضے اور اس سے پہلے ہندوؤں، مسلمانوں اور سکھوں کے دور اقتدار کی بے شمار کہانیاں اندرون شہر کے تنگ گلی محلوں میں آج بھی قید ہے۔ میں آپ کو اندرون شہر میں کچھ اندر کی طرف لے چلتا ہوں۔ آپ داتا دربار سے بھاٹی گیٹ کی طرف چلے۔ یہاں سے سیدھا لوہاری گیٹ اور اس سے آگے شاہ عالمی مارکیٹ کا چوک۔ یہاں سے آپ کے بائیں طرف شاہ عالمی مارکیٹ اور دائیں طرف بانساوالاں بازار ہے۔ ہم شاہ عالمی مارکیٹ کی طرف چلتے ہیں۔ اس طرف گندے نالے کے ساتھ بائیں طرف عینک مارکیٹ جبکہ دائیں طرف الیکٹرک مارکیٹ ہے۔ ان دونوں مارکیٹس کا زیادہ حصہ ناجائز ہے جو کہ نالے کے اوپر اور اس سے ملحقہ باغ پر قبضہ کرکے بنایا گیا ہے۔ اب آپ سیدھا آتے جائے آپ شاہ عالم مارکیٹ میں داخل ہوجائے گے۔ یہاں سے دنیا کی ہر چیز مل جاتی ہے لیکن اس چیز کا ایک نمبر ہونا آپ کی قسمت پر منحصر ہوتا ہے۔ اب ہم یہاں سے سیدھا چلتے ہیں، ہم رنگ محل سے ہوتے ہوئے اس کے چوک پر پہنچ جاتے ہیں، یہاں سرکاری ڈاک خانہ بھی موجود ہے۔ اس چوک سے کچھ آگے چل کر آپ کے بائیں طرف سونا مارکیٹ جبکہ دائیں طرف برتن والا بازار ہے۔ برتن والا بازار اب سکٹر رہا ہے اور اس کی جگہ کشمیری بازار لے رہا ہے۔ کشمیری بازار دہلی گیٹ سے شروع ہو کر برتن والے بازار تک آتا اور اس کی ایک طرف اعظم کلاتھ مارکیٹ بھی ساتھ ساتھ چل رہی ہے۔ اب آپ برتن والے بازار کی شروعاتی حدود پر کھڑے ہوجائے۔ یہاں شروع میں برتن والی دو دکانیں ہیں ایک کشمیری بازار والی سائیڈ پر اور ایک رنگ محل والی ئیڈ پر۔ اب آپ رنگ محل والی سائیڈ والی دکان کے اوپر نظر اٹھا کر دیکھے۔ اگر آپ کو تاریخ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے پھر بھی آپ حیران ہو جائے گے۔ یہاں پر متحدہ ہندوستان کی تاریخ کا ایک باب دفن ہے۔ اس دکان کی عمارت کسی زمانے میں کمرشل بینک آف ہندوستان ہوا کرتی تھی۔ میں اس کی تاریخ بیان کرنے سے پہلے اس وقت کے مقامی حالات بیان کرنا چاہوں گا۔ اس بینک کے سامنے جو آج کی سونا مارکیٹ ہے، کسی وقت میں ہندوؤں کا تجارتی مرکز ہوا کرتا تھا۔ یہاں زیادہ دکانیں ہندوؤں کی تھی جو سونے کا کام کرتے تھے۔ ان لوگوں کے پاس بہت وزنی لوہے کی تجوریاں ہوا کرتی تھی، جنہیں دکانوں کے اندر ہی زمین میں نصب کیا جاتا تھا۔ ان کو اٹھانا درجن سے کم انسانوں کے بس کی بات نہیں تھی اور یہ شہر کی محفوظ جگہیں سمجھی جاتی تھی۔ اس وقت کے ہندوؤں امانت اور دیانت میں مشہور تھے اور لوگ اپنے قیمتی سامان ان تجوریوں میں رکھواتے تھے۔ جن کی حفاظت کے لئے ماہانہ بنیادوں پر تھوڑی سی رقم وصول کی جاتی تھی۔ یوں امانت رکھوانے کا یہ کاروبار سونا مارکیٹ میں عام تھا۔ اس سلسلے میں اپنی تشہیر کے لئے باقاعدہ اشتہار بازی بھی ہوتی تھی۔
ہندو ان زیورات کو کمرشل بینک آف ہندوستان میں رکھوا کر اس پر سود کھاتے تھے جبکہ دوسری طرف ان زیورات کا اصل مالک زیور کی حفاظت کے بدلے ماہانہ بھی ادا کرتا تھا۔ جب مالک کو اپنی امانت درکار ہوتی تھی، دکاندار بینک سے واپس لے کر مالک کے سپرد کردیتا تھا۔ اسی طرح بہت سارے لوگ ان ہندوؤں کے پاس اپنی کیش رقم بھی بطور امانت رکھواتے تھے ان کے ساتھ زیورات والا معاملہ ہی کیا جاتا تھا۔ اس وقت کی سونا مارکیٹ کی پچھلی جانب ہندوؤں کے خاندان بھی آباد تھے۔
تقسیم کا اعلان ہوا اور ہر طرف فساد پھوٹ پڑے۔ مسلمانوں نے یہاں حملہ کردیا، دکانوں سے سونا لوٹ لیا گیا اور یہاں آگ لگادی گئی جس میں بہت سے ہندو زندہ جل گئے۔ سونا مارکیٹ جہاں سارا کام مسلمانوں کی امانتوں اور سود کے پیسوں سے چلتا تھا، تباہ ہوگیا۔ دوسرے لفظوں میں مسلمانوں نے ہندوؤں پر حملہ کرکے اپنا ہی مال اور اس پر سود لوٹ لیا۔
کمرشل بینک آف ہندوستان 1805میں گوبند رام بلڈنگ میں قائم کیا گیا تھا۔ گوبند رام اسی عمارت کے گروانڈ فلور پر دکان کرتا تھا۔ یہ کاروباری طور پر اچاڑ، چٹنی اور شربت فروخت کیا کرتا تھا اور اپنی اسی مصنوعات کی بناء پر علاقے میں کافی مشہور تھا اور علاقے کا بہت امیر اور قابل عزت فرد سمجھا تھا۔ تقسیم ہندوستان کے وقت باقی علاقوں کی طرح یہاں کے لوگ بھی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے۔ گوبندرام نے اپنا قیمتی سامان اور مال و دولت اسی بلڈنگ کے بیسمنٹ میں دفن کیا اور خود اپنے خاندان کو لے کر ہندوستان چلا گیا۔ حالات ٹھیک ہونے پر گوبندرام ہندوستانی اور پاکستانی افوا ج کے ذمہ داران کو لے کر واپس آیا اور یہاں دفن رقم نکال لی۔
اب ہم بینک کی طرف واپس آتے ہے، کمرشل بینک آف ہندوستان نے 1805 میں اپنی پانچ شاخیں کھولنے کا فیصلہ کیا تھا۔ جس میں سے پہلی برانچ امرتسر میں کھولی گئی تھی۔ جبکہ بنگال میں 1809 میں اس بینک کی ایک برانچ کھولی گئی۔ لاہور میں دو برانچیں کھولی جانی تھی جس میں سے ایک برانچ رنگ محل میں کھولی گئی تھی جبکہ دوسرے برانچ نیلے گنبد میں کھولی جانی تھی۔
اندرون لاہور قدیم روایات اور یاداشتوں کا امین ہے۔ آپ کا جب کبھی لاہور چکر لگے تو آپ کو چاہیے کہ اندرون لاہور کا لازمی دورہ کریں آپ کو یہاں کی خوشبو میں سکون ملے گا۔