1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حمزہ خلیل/
  4. انسٹرومنٹ آف سرینڈر

انسٹرومنٹ آف سرینڈر

(بحوالہ سلسلہ " دو قومیں" جو کہ 11 اپریل 2018 کو سخن کدہ میں شائع ہوا تھا۔)

"پاکستان ایسٹرن کمانڈ اس بات پر رضامند ہے کہ اس کی تمام افواج جو کہ بنگلہ دیش میں متعین ہے، وہ لیفٹینٹ جنرل جگجیت سنگھ آڑوڑہ جنرل آفیسر کمانڈنٹ انچیف انڈیا اور بنگلہ دیشں کے سامنے ہتھیار ڈال رہی ہے۔ اس سرینڈر میں شامل ہے تمام پاکستانی فوجیں اور ان کی معاون قوتیں جوکہ زمین، فضاء یا سمندر میں موجود ہے، ہتھیار ڈال رہی ہے اور جہاں جہاں بھی تعینات ہے، شکست کو تسلیم کررہی ہےاور اپنے آپ کو جگجیت سنگھ آڑوڑہ کی سربراہی میں دے رہی ہے۔ جیسے ہی یہ عہد نامہ دستخط ہونگا، پاکستان ایسٹرن کمانڈ، لیفٹینٹ جنرل جگجیت سنگھ آڑوڑہ کی کمانڈ میں آجائے گی۔ نافرمانی اس عہد نامہ کی خلاف ورزی تصور کی جائے گی اور اس کے خلاف جنگی قوانین کے تحت اقدامات کئے جائے گے۔ لیفٹینٹ جنرل جگجیت سنگھ آڑوڑہ کا فیصلہ حتمی تصور ہوگا اگر اس عہد نامہ کی تشریح کرنا مقصود ہوئی۔ لیفٹینٹ جنرل جگجیت سنگھ آڑوڑہ عہد اٹھاتے ہے کہ جو بھی ہتھیار ڈالے گا اس کے ساتھ عزت اور تکریم کے ساتھ پیش آئے جائے گا جوکہ جنیوا کنونشن کے تحت فوجیوں کو حاصل ہے، اور ضمانت دیتے ہے تحفظ اور اچھے رویے ان پاکستانی فوجیوں اور ان کی معاون قوتوں کے ساتھ جوکہ ہتھیار ڈالے دی گی۔ غیر ملکیوں، اقلیتوں اور مغربی پاکستان کے اہلکاروں کو لیفٹینٹ جنرل جگجیت سنگھ آڑوڑہ کی کمانڈ میں تحفظ دیا جائے گا۔ "

اوپر بیان کی گئی تحریر اس ذلت، رسوائی اور ناکامی کی داستان ہے جو 16 دسمبر 1971 کو ہمارے حصہ میں آئی تھی۔ یہ وہ پہلی اور آخری بنگلہ دیشی تحریر تھی جس پر کسی پاکستانی کے دستخظ تھے۔ اس تحریر کے سیدھے ہاتھ پر مشرقی پاکستان کے ایسٹرن کمان کے سربراہ لیفٹینٹ جنرل اے اے خان نیازی جبکہ بائیں ہاتھ پر بھارتی لیفٹینٹ جنرل جیگجیت سنگھ اروڑہ کے دستخط تھے۔ ان دونوں نے اپنے پرنٹڈ ناموں اور عہدوں کے نیچے تاریخ اپنے قلم سے رقم کی تھی۔

یہ 16 دسمبر 1971 کا دن ہے۔ ڈھاکہ کی حدود میں انڈین آرمی آزادانہ دھوم رہی ہے۔ جگہ جگہ مشرقی پاکستان کی عام عوام، سرکاری اہلکاروں اور جماعت اسلامی کے مقامی کارکنان کا قتل عام کیا جا رہا ہے، ہر طرف لاشیں بکھری پڑی ہے، جن کو کتے نوچ رہے ہے۔ اگلا منظر رمنا ریس کورس گارڈن، ڈھاکہ کا ہے۔ یہاں لوگوں کا ہجوم جمع ہے، ان کے ہاتھ میں مختلف قسم کا اسلحہ ہے، یہ سب بنگلالی ہے، جو پاکستان مخالف نعرے بلند کررہے ہے۔ ان کے پاس کچھ فاصلے پر ایک دو بھارتی فوجی بھی کھڑے ہے جو ان کو ایک خاص لائن سے آگے نہیں آنے دے رہے۔ کچھ دیر میں یہاں سے ایک گاڑی گزرتی ہے، اس کے ساتھ ہی نعروں کا شور مزید بلند ہوجاتا ہے۔ لوگ نعروں کے ساتھ گالیاں بھی نکال رہے ہے۔ ان میں سے بعض نے گاڑی پر حملے کی کوشش بھی کی۔ اس گاڑی میں مشرقی پاکستان ایسٹرن کمان کے سربراہ لیفٹینٹ جنرل اے اے خان نیازی سوار ہے جوکہ شکست پر دستخط کرنے کے لئے آرہے ہے۔ یہ علاقہ برٹش راج میں فوجی چھاونی ہوا کرتا تھا۔ بعد ازاں اس کو رمنا جمخانہ بھی کہا گیا۔ یہاں گھوڑوں کی ریس ہوا کرتی تھی، جس وجہ سے اسے ڈھاکہ ریس کورس بھی کہا جاتا تھا۔ یہاں تین عظیم لوگ مدفن ہے، جن میں شیر بنگال اے کے فضل حق، حسین شہید سہروردی اور خواجہ نطام الدین شامل ہے۔ یہ ریس کورس ہمارے زخموں کی پیداوار کے لئے کافی زرخیز ثابت ہوا۔ 1969 میں مجیب الرحمان کو جب جیل سے رہائی ملی تو اس مقام پر اس کے اعزاز میں عظیم الشان تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ 3 جنوری 1971 میں عوامی لیگ نے اسی مقام پر لوگوں کا ہجوم جمع کیا جہاں یہ عہد لیا گیا تھا کہ وہ بنگالی عوام کے مقدمے سے کسی قیمت پر پیچھے نہیں ہونگے۔ 7 مارچ 1971 کو شیخ مجیب الرحمان نے اپنی تحریک کو تحریک آزادی کا نام اسی مقام پر دیااور ایک بڑے عوامی جلسے میں بنگلہ دیشی پرچم لہرایا گیا۔

1971 میں پاکستان کی ایک کور تین ڈویژن پر مشتمل آرمی مشرقی پاکستان میں موجود تھی۔ 25 مارچ 1971 جب آپریشن سرچ لائٹ شروع کیا گیا تو 27,000 پاکستانی جوان موجود تھے۔ مزیر فوج مغربی پاکستان سے روانہ کردی گئی تھی لیکن ان کو پہنچنے میں بہت وقت لگنا تھا کیونکہ انڈیا کی جانب سے فضائی اور سمندری ناکابندی کردی گئی تھی۔ نومبر 1971 کے اہتمام تک پاکستان کی تین کور افواج موجود تھی یعنی مجموعی طور پر 45,000 اہلکار موجود تھے۔ جن میں 34,000 فوجی اور 11,000 غیر فوجی اہلکار تھے۔ جبکہ نومبر تک چھ سے سات ہزار اہلکار باغیوں کے حملوں میں شہید بھی ہوچکے تھے۔ ان تین کور کے مقابلے پر انڈیا کی مجموعی طور پر پانچ کورموجود تھی جنہوں نے مشرقی پاکستان کو گھیرے میں لے رکھا تھاجبکہ 1,75,000 مکتی باہنی کے تربیت یافتہ دہشت گرد اس کےعلاوہ تھے اس کے علاوہ عوامی لیگ کے اسلحہ بردار اہلکار بھی تھے جن کا کوئی اعداد و شمار نہیں تھا۔ 71 کی شکست کے بعد ذمہ داروں کے تعین کے لئے حمود الرحمان کمیشن مرتب کیا گیا یہ ایک "وار انکوائری کمیٹی" تھی، جس کو 26 دسمبر 1971 کو قائم کیا گیا تھا۔ اس کمیشن نے اپنی رپورٹ مرتب کی جو کہ زیادہ تر ریٹائر فوجیوں کے انٹرویوز پر مشتمل تھی۔ اس رپورٹ کی 12 کاپیاں تیار کی گئی تھی جس میں سے ایک حکومت کو ارسال ہوئی اور باقی سب ضائع کر دی گئی۔ 2000 میں اس رپورٹ کے کچھ حصے بھارتی اخبارات اور پاکستانی اخبارات میں شائع ہوئے تھے۔ اس کمیشن کے چھ اراکان تھے جن میں سے پانچ جج اور ایک ریٹائر لیفٹینٹ جنرل تھا۔ جولائی 1972 میں اس کمیشن کی پہلی رپورٹ مرتب کی گئی جس میں 213 لوگوں کا انٹرویو شامل تھا۔ 23 اکتوبر 1974 کو اس کمیشن کی دوسری رپورٹ مکمل ہوئی۔ یہ رپورٹ ان فوجیوں اور دوسرے لوگوں کے انٹرویوز پر مشتمل تھی جوکہ انڈیا اور بنگلہ دیش سے آزاد ہوکر آئے تھے اس میں مجموعی طور پر 300 لوگوں کا انٹرویو کیا گیا تھا۔ تاہم ان دونوں رپورٹوں کو ابھی تک شائع نہیں کیا گیا۔

انسان واحدہویا قوم غلطیاں سب سے ہوتی ہے لیکن یہ غلطی خطاء تھی یا جرم اس کا تعین کرنا لازمی ہوتا ہے۔ خطاء اور جرم میں آسان فرق یہ کیاجاسکتا ہے کہ خطاء ہوجاتی ہے اور جرم کیا جاتا ہے۔ خطاء اور جرم، دونوں کی دو قسمیں مزید ہے، یہ یا تو زخم ہوتے ہے یا پھر ناسور۔ زخم کو احتیاط اور علاج سے دور کیا جاسکتا ہے لیکن ناسور کا معاملہ دوسرا ہے۔ ناسور میں ایک ناسور مرگ ہوتا ہے اور ایک ناسور دواء۔ ناسور دواء کو جسم سے جدا نہیں کیا جاسکتا لیکن ہم ساری عمر علاج کرکے اس کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں مگر ناسور مرگ کو جسم سے کاٹ کر جدا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن یہ زخم ہو یا ناسور دواء، علاج نہ کرنے کی صورت میں یہ آہستہ آہستہ ناسور مرگ کی طرف بڑہتے جاتے ہیں۔ ہماری قومی تاریخ زخموں سے بھری پڑی ہے، ان میں سے کچھ ناسوردواء بھی بن چکے ہے۔ لیکن ہم کسی چیز میں سنجیدہ نہیں ہوتے۔ 16 دسمبر 1971 کا دن ہماری قومی تاریخ میں ناسور کی حثییت رکھتا ہے لیکن ذمہ داروں کے تعین کی بجھائے ہم آہستہ آہستہ اس دن کو اپنی تاریخ سے نکالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس دن بھارت اور بنگلہ دیشں میں فتخ کا جشن منایا جاتا ہے اور ہم اس پر بات کرنا بھی مناسب نہیں سمجھتے۔ ہمیں اس ناسور دواء کو ساتھ لے کر چلنا پڑے گا۔ ہمیں بنگلہ دیش کی طرز پر 1971 کے ذمہ داروں کو انجام تک پہنچانے کے لئے کمیشن بنانا پڑے گا۔ تاریخوں کو فراموش نہیں کیاجاتا ان سے سبق حاصل کیاجاتا ہے۔ آپ انسٹرومنٹ آف سرینڈر کے الفاظ کو پڑھے، کس قدر ذلت ورسوائی، شرمندگی، ہزیمت، کرب، ملامت اور ندامت کا سامان ہے۔ ہم نے صرف شکست نہیں کھائی، ہم نے عبرت ناک شکست کھائی ہے۔