1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حمزہ خلیل/
  4. لاہور کے قاتل کوے

لاہور کے قاتل کوے

مجھے ضروری کام کے سلسلے میں ایک جگہ جانا مقصود تھا موسم کی خرابی کے باعث میٹر و بس میں جانے کا انتخاب کیا۔ میرے مطابق میٹرو بس لاہوریوں کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں ہے یہ الگ بات ہے کہ میٹرو کے کسی اسٹیشن پر آپ کو پینے کے لئے پانی میسر نہیں ہوتا اور ہر اسٹیشن پر موجود واش رومز بھی قابل استعمال نہیں۔ میڑو بس کی سڑک کافی جگہ سے خراب ہو چکی ہے جس کی وجہ سے بہت سارے اسٹیشن ایسے ہے جہاں پر اسٹیشن کی حدود کی بجائے مسافروں کو سڑک پر اتارا جاتا ہے جہاں ان کو اتارنے کے لئے عارضی انتظام کیا گیا ہے۔ میں کچہری سے میڑو اسٹیشن میں داخل ہوا اور سڑک پر قائم عارضی اسٹیشن کی طرف چل پڑا، لاہور کے موسم پر بادلوں کا راج تھا۔ یہاں سے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کا منظر بہت ہی خوبصورت نظر آتا ہے۔ یہ کالج 1864 میں برٹش راج میں قائم کیا گیا تھا، اس کا حسن آج بھی کم نہیں ہوا۔ اس کی عالی شان بلڈنگ جو کہ وائس چانسلر کادفتر بھی ہے، آپ کو اپنے سحر میں مبتلا رکھتی ہے، یہ ہر دفعہ دیکھنے میں نئی اور دلکش لگتی ہے۔ میٹرو اسٹیشن سے کالج کا نظارہ بہت شاندار تھا، یہاں سے کالج کا میدان اور اس کے اطراف کے حصے زیادہ واضح نظر آتے ہیں۔ میں اس کالج میں ایک سال تک رہا لیکن پھر بھی اس کے کچھ حصوں کا میں نے آج ہی مشاہدہ کیا تھا۔ اس کے بعد میں آسمان کی طرف متوجہ ہوا جہاں بادلوں کی قطارے ایک دوسرے کے پیچھے رواں تھی۔ میری نظر آسمان سے گھومتی ہوئی اپنے مشرق کی طرف چل پڑی اور کیا دیکھتا ہو کہ اس طرف کا لاہور کالا ہوا پڑا ہے۔ آسمان پر کوے اور چیلں بے ترتیب اڑے پھرتے تھے جیسے ان کے نیچے گوشت کے ٹکڑوں کا انبار سا لگا ہو۔ ان کی تعداد اتنی زیادہ اور اس قدر تھی کہ حد نظر بس اسی کالک کا چرچا تھا۔

کوے لاہور میں خطرناک حد تک اپنی آبادی میں اضافہ کرچکے ہیں۔ اس کی بہت ساری وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کوا باقی پرندوں کی نسبت سب سے ذہین پرندہ ہے جو اپنے زندہ رہنے کے لئے ماحول بنا لیتا ہے۔

ایک کوا پیدا ہو کر 20 سال تک لاہور کی فضاوں میں رہ سکتا ہے ان کےاجداد میں ایک صحت مند کوا ایسا بھی تھا جو 59 سال تک زندہ رہا۔ کوا کبھی اکیلا نہیں رہتا ان کے اپنے گروپس ہوتے ہیں اور اس گروپ میں کوئی دوسرا کوا نہیں آسکتا۔ اگر اس گروپ کا کوئی ممبر فوت ہو جاتا ہے تو گروپ کے باقی کوے باقاعدہ سوگ مناتے ہیں۔ کوے وفا دار ہوتے ہیں ان کے ازواجی تعلقات بس اپنی شریک حیات تک محدود ہوتے ہیں۔ اگر ان میں سے کسی ایک کو کھانے والی چیز کا علم ہو تو یہ دوسرے کو ؤں کوبھی آگاہ کر دیتے ہیں۔ دوسرے پرندوں کے مقابلے میں کوے اپنے ماں باپ کے ساتھ زیادہ دیر تک رہتے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ یہ پانچ سال یا اس سے بھی زیادہ دیر تک اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتے ہیں اور دوسرے بچوں کی پرورش میں اپنے والدین کی مدد کرتے ہیں۔ کوے کی بہت سے اقسام پائی جاتی ہے۔
ایک وقت تھا کہ لاہور کی فضاؤں میں طوطے، مینا، بلبل اور چھوٹی چڑیا کو دیکھا جاتا تھا لیکن اب یہ خوش رنگ پرندے نایاب ہوچکے ہیں۔ ان کی ایک بڑے وجہ یہ کوے ہے کیونکہ ان کی کوئی خاص خوراک نہیں ہوتی یہ سب کچھ کھا جاتے ہیں۔ لیکن ان کا پسندیدہ کھانا اوپر بیان کرتا پرندے ہیں۔ کوے ان پرندوں کو زندہ کھا چکے، یہ ان کے انڈے بھی کھا جاتے ہیں اور ان کے گھونسلے تباہ کردیتے ہیں۔ کوؤں کی تعداد لاہور میں خطرناک حد تک پھیل رہی ہےجس کی بنیادی وجہ ہماری توہم پرستی اور کم علمی ہے۔ ایک کاروبار جو راوی پل سے شروع ہوا اور اب آپ کو یہ لاہور میں جگہ جگہ مل جاتا ہے۔ راوی پل پر آپ کو بوڑھے، بچے، خواتین اور نوجوان گوشت کے چھیچھڑے فروخت کرتے نظر آتے ہیں۔ اکثر لوگ جن میں جاہل اور پڑھے لکھے دونوں قسم کے لوگ شامل ہے، ان سے گوشت خرید کر کووں اور چیلوں کو ڈال دیتے ہیں یوں ہمیں نیکی کرنے اور اپنا صدقہ دینے کا آسان اور سستا طریقہ مل گیا ہے جس کے نتیجے میں پرندوں کی نسلیں ناپید ہو چکی ہے۔

میری اس کالم کے توسط سے آپ سب سے اپیل ہے کہ صدقے کا گوشت بیچنے والوں کا مکمل بائیکاٹ کریں ان سے گوشت لے کے کوؤں کو ہرگز نہ ڈالیں۔ اپنا اتنا خطرناک اور نقصان دہ صدقہ نہ دے ورنہ پرندوں کی ناپید ہوتی نسلوں کے گناہ میں آپ برابر کے شریک ہونگے۔ میری حکام بالا سے اپیل ہے کہ گوشت فروخت کرنے والے ان جاہلوں پر مکمل پابندی لگا ئی جائے۔ کوؤں کی نسل کشی کا فوری بندوبست کیا جائے اور خوش رنگ پرندوں کی حفاظت اور افزائش نسل کا انتظام کیا جائے۔