1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حمزہ خلیل/
  4. مقبوضہ خدا

مقبوضہ خدا

مسجد قباء کو اسلام کی پہلی مسجد ہونے کا اعزاز حاصل ہے اس کی بنیاد روز اول سے ہی تقویٰ اور پرہیزگاری پر رکھی گئی تھی۔ جب رسول پاکﷺ نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو اس مسجد کی تعمیر راستے میں ہوئی۔ اس کی تعمیر میں رسالت مابﷺ نے بذات خود حصہ لیا۔ اسلام کی دوسری مسجد کا نام مسجد ضرار تھا، یہ اسلام کی دوسری مسجد تھی لیکن اسلام میں دوسری مسجد نہیں تھی۔ اس کی تعمیر منافقین کی طرف سے کی گئی تھی اس کی تعمیر کے بعد منافقین نے رسالت مابﷺ کو یہاں آکر نماز کی امامت کرنے کی دعوت دی۔ رسالت مابﷺ اس وقت ایک مہم کے سلسلے میں مدینہ سے باہر تھے جب آپ نے واپسی کا سفر شروع کیا تو راستے میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت جبریل امین تشریف لائے اور رسالت مابﷺ کو مسجد ضرار کی اصلیت سے آگاہ کیا چنانچہ اس کے سدباب کے لئے رسالت مابﷺ نے اس طرف چند اصحاب کو بھیجا۔ تاریخ میں آتا ہے کہ ان اصحاب نے اس مسجد کو مسمار کردیا یا آگ لگا دی تھی۔ یہ تاریخ کی پہلی مقبوضہ مسجد تھی جس کا مقصد مسلمانوں میں نفرت پھیلانا اور ان کی صفوں کو کمزور کرنا تھا۔ ہر وہ مسجد جو بدنیتی پر مبنی ہے یا جس میں بدنیتی کا درس دیا جاتا ہے وہ مقبوضہ مسجد کے زمرے میں آتی ہے۔ مسجد ضرار کے بعد مقبوضہ چیزوں کا آغاز ہوگیا۔ مسلمانوں نے خدا کی ہر چیز کو مقبوضہ بنادیا۔ ہمارے نزدیک خدا کی نعمتوں سے لے کر خدا کی ذات تک ہر چیز مقبوضہ ہے۔ مسلمانوں کی ایجادات کا سلسلہ رسالت مابﷺ کے وصال سے دو سو سال بعد جا کر رک جاتا ہے۔ لیکن دنیا کے تمام شعبہ زندگی میں نظر دہرائیں تو مسلمان کسی جگہ نظر نہیں آتے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا مسلمانوں کا مقبوضہ نہیں ہے۔ مسلمانوں کی اس تنگ نظری کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم فرقہ فرقہ ہو چکے ہیں۔ ہماری مساجد کا حال یہ ہے کہ اگر آپ اپنے آس پاس مساجد کا مشاہدہ کریں تو مشرف دور سے پہلے تک ایسی بے شمار مساجد کا نشان ملتا ہے جس کے باہر مختلف فرقوں کا نام کندہ کر کے یہ واضح درج تھا کہ ان کا داخلہ اس مسجد میں منع ہے۔ ہمیں تاریخ میں ایسے واقعات بھی ملتے ہیں کہ اگر کسی دوسرے فرقے کے لوگوں نے کسی اور فرقے کی مسجد میں نماز ادا کرلی تو نہ صرف یہاں نماز کی امامت دوبارہ کروائیں گئی بلکہ اس مسجد کو دوبارہ غسل بھی دیا گیا۔ اس چیز کی منطق یہ پیش کی جاتی ہے کہ ہر فرقے کے نزدیک دوسرا فرقہ کسی نا کسی وجہ سے خارج از اسلام ہے اور خود کو جنتی اور دوسرے کو جہنمی سمجھاجاتا ہے۔ ہم ایک سکینڈ کے لئے ہر فرقے کی یہ بات درست تسلیم کرلیتے ہیں کہ وہ جنتی اور دوسرا جہنمی ہے۔ اس حساب سے اسلام کے تمام 73 فرقے دوزخی قرار پاتے ہیں اور تمام فرقوں کے نزدیک اسلام کے علاوہ تمام مذاہب کا ٹھکانہ بھی جہنم ہے۔ تو اس حساب سے اللہ کی اس خوبصورت جنت میں کون جائے گا؟ اللہ کی یہ خالی جنت پھر کس کا مسکن ہوگی؟ رسالت ماب کی ایک لمبی حدیث پاک ہے جس کا آخری حصہ ہے کہ "تم 73 فرقوں میں بٹ جاؤ گے ایک گروہ اسلام پر ہوگا، باقی تمام گمراہ ہونگے"۔ اس حدیث پاک میں دو چیزیں غور طلب ہے۔ ایک "فرقہ" اور دوسرا "گروہ"۔ عام تعریف میں فرقے سے مراد ایک جیسی سوچ اور فکر رکھنے والے افراد کا گروپ ہے۔ جبکہ گروہ سے مراد مختلف قسم کی سوچ اور فکر رکھنے والے افراد کا گروپ ہے۔ چنانچہ اس حدیث پاک کی روشنی میں کسی بھی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد جو کہ "اے ایمان والوں! نیکی اور پرہیزگاری کے کام آپس میں مل جل کر کیا کروں (القرآن)" پر عمل پیرا ہے اللہ ان کو روز قیامت کامیابی سے ہمکنار کریں گا۔ (انشاءاللہ) ہم نے اللہ کے گھر کو اپنے ذاتی ہیڈ کواٹروں میں منقتل کر دیا ہے اور ہم یہاں مورچے بناء کر دوسروں کے عقیدوں اور ذاتیات پر گولہ باری کرتے رہتے ہیں۔

اللہ سبحان و تعالیٰ نے انسان کو تخلیق کیا اس کی رشدوہدایت کے لئے ہر زمانے اور ہر قوم میں انبیاء کو مبعوث کیا، 4 کتابیں اور کچھ صحیفے نازل کئے۔ لیکن ہر دور کے انسان کا ایک ہی مسئلہ رہا ہے وہ خدا کو مقبوضہ کرتے رہے ہیں۔ ہر دورکی قوم کے نزدیک وہ دنیا کی افصل اور خدا کی محبوب قوم تھی۔ بنی اسرائیل کو بھی خود پر یہی خوش گمانی تھی اور اب مسلمان بھی اسی خوش فہمی میں مبتلا ہے۔ خدا نے ہر دور میں اپنے لوگوں کو نصیحت کی اور یہ سلسلہ روکا نہیں۔ رسالت مابﷺ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بناء کر بھیجا۔ جس قوم کو جب بھی عروج ملا اس نے دوسری قوموں کا قتل عام اپنا حق سمجھ کر کیا۔ کچھ لوگ رحمان کے نام پر قتل کرتے رہے اور کچھ شیطان کے نام پر۔ اگراللہ مسلمانوں کا مقبوضہ ہے تو دنیا کے علم و دانش کے خزانے غیر مسلموں کے پاس کیوں ہے؟ دنیا کی طاقت کا سرچشمہ غیر مسلم کیوں ہے؟ دنیا کی معیشت پر غیر مسلموں کا قبضہ کیوں ہے؟ ہم میں سے اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کے زوال کی وجہ ان کی مذہب سے دوری ہے۔ یہاں ایک بات ذہن نشین رکھیں کہ رسالت مابﷺ رحمت العالمین ہیں، صرف رحمت المسلین نہیں اور اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہواکہ اسلام کی تعلیمات اور قوانین سے غیر مسلم بھی فیض حاصل کرسکتے ہیں۔ قرآن پاک کی سورت نجم آیت نمبر 36 میں ارشاد ہے "انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے" اس آیت مبارکہ کو سامنے رکھ کر اگر ہم یہ سمجھے کہ اقوام مغرب کی ترقی کا راز ان کی ذاتی محنت اور علم نہیں بلکہ یہ مسلمانوں کا اپنی مذہب سے دوری کے صلے میں عنایتوں کی بارش ہے، یہ چیز تنگ نظری نہیں تو اور کیا ہے۔ اگر اللہ نے صرف مسلمانوں کو تخلیق کیا ہوتا تو اس کی ہر نعمت پر حق جتانا اور بات تھی۔ لیکن ہم مسلمان باہم ایک دوسرے کو اللہ کی نعمتوں میں سے حصہ دینے کو تیار نہیں تو ہمارا رویہ دوسروں کے ساتھ کیسے ٹھیک ہوسکتا ہے۔ اسلام دین حق ہے اور اللہ کی بارگاہ میں قابل قبول بھی لیکن یہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ دین کی تبلیغ کو عام کریں۔ آخرت میں کامیابی کا درومدار دین حق پر ہی ہے لیکن ایک ایسا انسان جس تک اسلام کا پیغام بہیں پہنچا جوکہ اسلام سے ناواقف ہے اس کا انجام کیا ہوگا۔ میں آخر میں ایک حدیث پاک بیان کرکے اپنے کالم کا اہتمام کروں گا۔ حضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ہے کہ رسالت مابﷺ نے فرمایا "ہر شخص سے اس کے علم کے مطابق حساب ہوگا"۔ میں آخر میں بس اتنا کہنا چاہوں گا کہ خدا مقبوضہ نہیں ہے نہ ہی مسلمانوں کا اور نہ ہی اسلام کے کسی فرقے کا۔ اگر ہم آپس میں میں ایک دوسرے کو مسلمان ہی رہنے دے تو ہمارے حق میں بہتر ہے ورنہ اللہ ہر ایک سے بےنیاز ہے۔