1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حمزہ خلیل/
  4. مسئلہ تقدیر

مسئلہ تقدیر

انسان پیدائشی طور پر جلد باز اور ناشکراہے۔ ہمیں ہمیشہ سے یہ جستجو رہی کہ ہم مستقبل کا علم حاصل کریں۔ ہم یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ مستقبل میں کیا ہوگا، ہم اس کے لئے منصوبے بھی تشکیل دیتے ہیں اور جب نتیجہ ہمارے منصوبوں کے مطابق نہیں ہوتا تو ہم مایوسی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ہم میں سےاکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر سب کچھ پہلے سے لکھ دیا گیا ہے تو ہماری نیکی اور بدی کس کام کی ہے۔ انسان کی تخلیق کے ساتھ ہی اس کی تقدیر لکھ دی جاتی ہے۔ جس میں چار چیزیں لکھی جاتی ہے ایک اس کے اعمال، موت کا وقت، اس کا رزق اور اس کا بدبخت یا نیک بخت ہونا۔ تقدیر اللہ اور ہمارے علم کے درمیان فرق کا نام ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ ہم اس میں حصہ دار بنیں لیکن اللہ کے علم میں اس کی منشاء کے بغیر کوئی کچھ حاصل نہیں کرسکتا۔ تقدیر کیا ہے، یہ کیسے نافذہوتی ہے اور اس کا علم ہونا ہمارے لئے کتنا ضروری ہے اس کو حدیث پاک کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

حضرت ابن دیلمی سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں ابی بن کعب کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ تقدیر کے سلسلے میں میرے دل میں عجیب خلجان سا پیدا ہوگیا ہے لہذا آپ اس کے متعلق کچھ بیان فرمائیں، شاید اللہ تعالٰی اس خلجان کومیرے دل سے دور کردے۔ انہوں نے فرمایا: سنو اگر اللہ تعالٰی زمین و آسمان کی تمام مخلوق کو عذاب میں ڈال دے تو یہ ظلم نہ ہوگا اور اگر ان سب کو اپنی رحمت سے نواز دے، تو اس کی یہ رحمت ان کے اعمال سے بہتر ہوگی (یعنی یہ مخص اللہ کا فضل و احسان ہوگا) اور اگر تم احد پہاڑ کے برابر سونا فی سبیل اللہ دے دو تو وہ اللہ کے ہاں قبول نہیں ہوگا جب تک کے تم تقدیر پر ایمان نہ لے آؤ اور تمہارا یہ پختہ اعتقاد نہ ہوکہ جو کچھ تمھیں پیش آتا ہے تم کسی طرح اس سے چھوٹ نہیں سکتے تھے، اور جو حالات تم پر پیش نہیں آتے وہ تم پر آہی نہیں سکتے تھے (یعنی سب اللہ کی طرف سے مقرر ہے اور اس میں ذرہ برابر تبدیلی ممکن نہیں ہے) اگر تم اس کے خلاف اعتقاد رکھتے ہوئے مر گئے تو تم دوزخ میں جاؤ گے۔

حضرت علی ع سے روایت ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا : تم میں سے ہر ایک کا دوزخ اور جنت میں ٹھکانہ لکھا جاچکا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا تو کیا ہم نوشتہء تقدیر پر بھروسہ نہ کریں اور عمل چھوڑدیں؟ آپﷺ نے فرمایا: نہیں، عمل کئے جاؤ، کیونکہ ہر ایک کو اسی کی توفیق ملتی ہے، جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے۔ جو نیک بختوں میں سے ہے اسے سعادت اور نیکی کے کاموں کی توفیق ملتی ہے اور جو بدبختوں میں سے ہے اسے شقاوت اور اعمال بد کی ڈھیل ملتی ہے۔ اس کے بعد آپﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی؛ (ترجمہ) جس نے اللہ کی راہ میں دیا اور تقویٰ اختیار کیا اور بھلائی کو مانا اس کے لئے ہم آسانی کی طرف راہ کھول دیتے ہیں اور جس نے بخل سے کام لیا (اللہ تعالیٰ سے) بے نیازی برتی اور بھلائی کو جھٹلایا اس کے لئے ہم سختی والے راستے کو آسان کردیتے ہیں۔

ہر نیک و بد کا جنت و دوزخ میں ٹھکانہ مقرر ہوچکاہے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ بندہ مخص تقدیر سے اپنے انجام کو جا پہنچتا ہے اور اس میں اس کے اعمال کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا بلکہ یہ بھی تقدیر الہیٰ ہے کہ جو جنت میں جائے گا وہ اپنےفلاں فلاں اعمال خیر سے جائے گا اور جو جہنم میں جائے گا وہ اپنے فلاں فلاں اعمال بدکی وجہ سے جائے گا۔ جب بندہ حق و صداقت کی سچے دل سے تصدیق کرتا ہے تو پھر اس کے لئے گناہ کرنا مشکل اور نیکی کرنا آسان ہوجاتا ہے اور اگر کوئی حق وصداقت کے مقابلہ میں اپنی اغراض و خواہشات کا بندہ بن جائے گا اس سے بھلائی کی توفیق سلب ہوجاتی ہے اور اس کے لئے برائی کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں۔ اس کے لئے بدی آسان اور نیکی مشکل ہوجاتی ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ہم (مسجدبنویﷺمیں بیٹھے ) قضاءوقدر کے مسئلے پر بحث کررہے تھے کہ رسول پاک ﷺتشریف لے آئے۔ (ہماری بحث سن کر) آپﷺ غضبناک ہوئے، یہاں تک کہ چہرہ مبارک یہاں تک سرخ ہوگیا، معلوم ہوتا تھا آپ کے رخساروں پر انار نچور دیا گیا ہے، پھر آپﷺ نے ہم سے فرمایا: کیا تمہیں یہی حکم دیا گیا ہے؟ کیا مجھے دنیا میں اسی مقصد کے لئے بھیجا گیا ہے (کہ تم قضاء و قدر جیسے نازک مسئلے پر بحث کرو؟)۔ سنو، تم سے پہلی قومیں اس وقت ہلاک ہوئیں جب انہوں نے اس مسئلے پر بحث و حجت کو اپنا طریقہ بنالیا، میں تمہیں قسم دیتا ہوں، میں تم پر لازم کرتا ہوں کہ اس مسئلے پر بحث و حجت نہ کیا کرو۔

یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ قضاء و قدر کا تعلق اللہ تعالیٰ کی صفت علم سے ہے۔ چونکہ ہم اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی ماہیت کو نہیں سمجھ سکتے اس لئے مسئلہ قدر بھی لامحالہ ایک نازک اور مشکل مسئلہ بن جاتا ہے۔ اس لئے اس میں بہت زیادہ غور وخوض کرنا یا بحث و مباحثہ کرنا لاحاصل ہے۔ مگر یہ بھی واضح رہے کہ اس حدیث میں ممانعت بحث اور نزاع سے ہے، اگر ایک شخص تقدیر کے مسئلے پر ایمان رکھتے ہوئے صرف اطمینان قلب کے لئے کسی صاحب علم سے سوال کرے تو اس کی ممانعت نہیں ہے۔ جن لوگوں کی سمجھ میں یہ مسئلہ نہ آئے ان کے لئے صحیح طریقہ کار یہی ہے کہ وہ کسی قسم کی کٹ حجتی اور بحث کے بجائے اپنی عقل کی نارسائی اور اپنی کم علمی کا اعتراف کرلیں اور تقدیر پر ایمان رکھیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر سب کچھ لکھ دیا گیا ہے تو پھر انسان کی کوشش کیا اہمیت رکھتی ہے ؟ اس حوالے سے ایک حدیث پاک بہترین جواب ہے۔ "حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دعا کے سوا کوئی چیز قضاء کو نہیں ٹال سکتی اور نیکی کے سوا کوئی چیز عمر میں اضافہ نہیں کرسکتی"اس حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ تقدیر کے لکھے کو دعا کے ذریعہ سے بدلا جاسکتا ہے یہاں تک کہ ہم اپنی موت کے وقت کو بھی نیک اعمال کے ساتھ تبدیل کرسکتے ہیں۔ تاہم قضاءقدر کی دوقسمیں ہیں ایک قضائےمبرم اور دوسری قضائےمعلق۔ قضائے مبرم اٹل ہے مگر قضائے معلق توبہ اور دعا سے بدل جاتی ہے۔ چنانچہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمیں اپنی زندگی کے معاملات کے لئے نہ صرف دعا کرنی چاہیے بلکہ اس کے لئے کوشش بھی کرنی چاہیے اور اگر ہمارا یہ مقصد قضائے مبرم میں سے ہوا تو اللہ پاک اس کو خالص اپنی منشاء کے مطابق بدل دیتا ہے۔ کیونکہ تمام کائنات مل کر بھی اللہ سے کوئی ایک بات نہیں منوا سکتی اور تمام کائنات مل کر بھی اللہ کی ایک بات کو رد نہیں کروا سکتی۔

ہمارے معاشرے میں ایک یہ چیز بھی بہت زیادہ پائی جاتی ہے کہ ہم اپنے کسی نقصان پر یہ کہتے ہیں کہ اگر میں ایسے کرلیتا تو ایسا نہ ہوتا۔ اس حوالے سے ایک حدیث پاک ہے کہ "حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مضبوط مومن کمزور مومن سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ بہتر اور پسندیدہ ہوتا ہے اگرچہ دونوں میں خیر ہے۔ (یاد رکھو) جو چیز نفع رساں ہو اس کے حریص بنے رہو اور اس میں اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو اور درماندہ بن کر کوشش نہ ترک کردو اور اگر کبھی نقصان ہوجائے تو یہ مت کہو: اگر میں یوں کرتا تو ایسا ہوجاتا بلکہ یوں کہو اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہی مقدر تھا، جیسا اس نے چاہا کردیا کیونکہ کلمہ "اگر" سے شیطان کی کارگزاری کا رستہ کھلتا ہے۔ "

ہمیں دنیا میں ایک عارضی وقت کے لئے تعینات کیا گیا ہے"عقیدہ آخرت "پر پختہ یقین اور ایمان کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہماری کامیابیاں اور ہماری ناکامیاں اپنی اہمیت کھو دیتی ہے۔ ہم اپنے کام چھوڑ کر لوگوں کے کام میں لگ جاتے ہیں جوکہ اللہ کی عادت بھی ہے اور ولی اللہ کی پہچان بھی۔ قضاء و قدر اپنی جگہ ہیں اور کسب و اختیار اپنی جگہ، اور شان مومن یہی ہے کہ کامیابی ہو یا ناکامی دونوں حالتوں میں بندگی اور عبودیت پر قائم رہے۔ کامیابی کو اپنا کمال نہ سمجھے اور ناکامی کو اللہ کی تقدیر جانے اور مایوس نہ یو اسی بات کی طرف سورۃ حدید کی یہ آیت اشارہ کررہی ہے (ترجمہ) "تاکہ اس پر تم غم نہ کھاؤ جوتم کو حاصل نہ ہوسکا اور نہ اس پر شیخی ماروجو تم کو عطاء فرمایا"