1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حمزہ خلیل/
  4. معذور

معذور

معذور کا لفظ سن کر ہمارے ذہن میں جو نقش عام طور پر پیدا ہوتا ہے وہ ایک ایسے شخص کا ہے جو پولیو کی وجہ سے اپنی ٹانگ کھو چکا ہویا جس کا ایک بازو خراب ہو یا جو ٹھیک سے چل نہ سکتا ہو۔ ہم عام طور پر جسمانی نامکمل ساخت کے حامل شخص کو معذور سمجھتے ہیں جس کو عام زبان میں اپاہج بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن اس معذوری کے باوجود بلند ہمت انسان کامیاب زندگی گزار سکتا ہے۔ ان مشکلات کو کسی سہارے یا کسی مصنوعی اعضاء کی پیوند کاری سے کم یا ختم بھی کیا جاسکتا ہے۔ معذوری جسمانی اپاہج ہونے کے علاوہ ذہنی بھی ہوتی ہےجن کو ہمارے معاشرے میں عام طور پر اللہ لوگ، سائیں لوگ یا پاگل سمجھا جاتا ہے۔ نفسیاتی مریض کا لفظ آتے ہی ہم اس کو پاگل قرار دے دیتے ہیں اور اس کا سب سے آسان حل ہمارے پاس یہ ہوتا ہے کہ اسے کسی پاگل خانے میں جمع کروا دیا جائے یا وہ ساری زندگی گلی محلوں کی خاک چھانے اور آوارہ، اوباش بچے اس کو پتھر مارتے پھرے۔ تاہم اس نوعیت کی شدت کا ادراک کرنا ہماری کم سطحی اور معاشرتی کم علمی کی وجہ سے ممکن نہیں ہوتا۔

اپاہج انسان کے لئے بہت کچھ کیا جاسکتا ہے لیکن نفسیاتی عارضے میں مبتلا انسان کو ہم بیمار تصور ہی نہیں کرتے۔ نفسیات کا تعلق انسان کے جسم کی بجائے اس کی روح سے ہوتا ہے۔ آپ عام زبان میں یوں سمجھ سکتے ہیں کہ جب آپ کوئی کمپیوٹر خریدتے ہے اس میں لگے ہارڈویئر کو چیک کیا جاتا ہے یہ آپ کے معیار کے مطابق ہوتو آپ اس کا سودا کرلیتے ہیں۔ اس کو خریدنے کا مطلب یہ ہوا کہ یہ کمپیوٹر جسمانی طور پر صحت مند ہے لیکن یہ اس کے باوجود اس وقت تک کام نہیں کرتا جب تک کہ اس میں سافٹ وئیر انسٹال نہیں کیا جاتا۔ اگر کمپیوٹر کے تمام پرزے ٹھیک ہو لیکن اس کے سافٹ وئیر میں کوئی خرابی پیدا ہوجائے تو یہ استعمال کے قابل نہیں رہتا۔ انسان کا جسم ایک ہارڈوئیر ہے اور اس کی روح کو سافٹ وئیر کا مقام حاصل ہے۔ اگر آپ کا کوئی قریبی عزیز کسی ذہنی بیماری میں مبتلا ہے تو اس کے متعلق منفی سوچ رکھنے سے پہلے اس کی ذہنی بیماری کا علاج کروالینا بہتر ہوتا ہے کیونکہ آپ کا نامناسب رویہ اس کی بیماری کو مزید طوالت دے گا اور اس کے نارمل زندگی گزارنے کے امکانات کم ہوتے جائے گے۔

لیکن اس بات کا اندازہ کیسے کیا جاسکتا ہے کہ کوئی شخص ذہنی بیماری کا شکار ہے؟ اس کے لئے عام طور پر درج ذیل باتوں کا مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص اداس رہنے لگا ہے یا زیادہ دیر خاموش رہتا ہے، اس کے کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہوئی ہے، اداس ہونے کی وجہ سے کام کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتا یا وہ جلدی تھک جاتا ہے۔ ان میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت بہت کم ہوتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو خود پر اعتماد نہیں ہوتا۔ یہ چیزوں پر زیادہ دیر توجہ مرکو ز نہیں رکھ سکتے، ان کے دوسرے لوگوں سے تعلقات زیادہ دیر نہیں چلتے۔ یہ انجانے خوف میں مبتلا رہتے ہیں اور کسی چیز کو لے کر جلدی فکر مند ہوجاتے ہیں لیکن یہ اس کا اظہار بعض صورتوں میں نہیں بھی کرتے۔ یہ زندگی میں پیش آنے والے کسی ناخوشگوار واقعے پر خودکو ذمہ دار سمجھتے ہیں اور اس سوچ کی وجہ سے خود کو کوئی سزا خود ہی تجویز کرلیتے ہیں۔ ان کا موڈ بہت جلدی تبدیل ہوجاتا ہے، ان کا خوشی یا غم محسوس کرنے کا رویہ دوسروں سے مختلف ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ خوشی والی بات پر غمگین اور غم والی بات پر خوشی محسوس کرتے ہو۔ یہ دوستوں اور رشتے داروں سے کنارہ کش ہوتے ہیں، اپنے سے منسلک انسانی رشتوں کو توجہ نہیں دیتے۔ یہ خود کو تھکا ہوا محسوس کرتے ہیں، ان کو جسمانی کمزوری بھی محسوس ہوتی ہے اور سونے میں بھی مشکل پیش آتی ہے۔ یہ حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے یا کم از کم اس کا اظہار نہیں کرتے، ان کو عجیب و غریب خیالات گھیرے رہتے ہیں اور یہ حقیت سے ہٹ کر خود کو فریب دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ یہ ایک ہی مسئلے کو ہر گزرتے دن کے ساتھ سوچتے رہتے ہے لیکن اس کے حل کے لئے کچھ نہیں کرتے۔ ان سے حالات اور لوگوں کا سامنا نہیں کیا جاتا یا کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ ان میں زیادہ تر شراب نوشی جیسی خرابی یا کسی نا کسی قسم کے نشے میں مبتلا ہوتے ہے۔ ان کے کھانے پینے کی عادات میں فرق آتا رہتا ہے جن کا کوئی متعین وقت نہیں ہوتا جس وجہ سے یہ ہاضمے کے مسائل کا شکار بھی رہتے ہیں۔ ان میں جنسی طاقت کی کمی اور زیادتی بھی غیر متوازن ہوتی ہے۔ یہ بہت زیادہ غصے والے بھی ہوتے ہیں اور کبھی بہت زیادہ ملنسار اور خوش اخلاق۔ کبھی یہ چھوٹی بات پر بڑا ہنگامہ کھڑا کردیتے ہیں تو کبھی بڑے بات کو بھی برداش کرجاتے ہیں۔ ان کی زندگی میں دلچسپی کم ہوتی ہے، خودکشی کے خیالات ان کے دماغ میں گھومتے رہتے ہیں یا یہ اپنی عادات اور رویے سے خود کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

ان کے ذہنی مسائل کی وجہ سے ان کو اکثر معدے کے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ ان کے جسم کے پیچھے کے پٹھوں اور سر میں بھی درد رہتا ہے۔ ان کو کوئی درد اچانک ہوکر اچانک ختم ہوجاتا ہے۔ اوپر بیان کئے گئے تمام عوامل ذہنی بیماری کی صورت میں ایک ساتھ یا ان میں سے کچھ پائے جاتے ہیں جبکہ خود کا خیال نہ رکھنا اور خودکشی کا رحجان زیادہ تر لوگوں میں موجود ہوتا ہے۔ ان تمام عوامل کو متاثرہ شخص خود سے بھی دور کرسکتا ہے لیکن اس کے ساتھ منسلک رشتوں کا اس کے ساتھ رواں رویہ اس بیماری کو مزید بیگار دیتا ہے۔ جس کے نتیجے کے طور پر اس سے متاثر شخص تو مکمل طور پر ایک غیر متوازی زندگی گزار رہا ہوتا ہے جس کا اپنا کوئی مقصد حیات نہیں ہوتا لیکن اس سے منسلک رشتے اپنے رویوں کی وجہ سے مسلسل تناؤکا شکار رہتے ہیں، جس سے خاندان کمزور ہوتا رہتا ہے۔

ذہنی بیماریوں کی وجہ کسی غم کا لمبے عرصے تک انسان کی ذات سے منسلک رہنا ہے، غموں کا آغاز خوف سے ہوتا ہے، ہماری ساری زندگی خوف و غم کے درمیان گزرتی ہے چنانچہ قرآن پاک میں اہل جنت پر اللہ تعالیٰ کی جو عنایتیں بیان کی گئی ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ کوئی غم۔ ہم میں سے ہر انسان زندگی کے کسی نہ کسی حصہ میں ذہنی تناؤ کا شکار رہتا ہے لیکن مسلسل ذہنی تناؤ اور ہمارے اپنوں کا خراب رویہ اس وقتی ذہنی تناؤ کوذہنی بیماری میں منتقل کردیتا ہے۔ اگر آپ کے آس پاس کوئی ایسا شخص موجود ہے تو اس کے رویے کے جواب میں اشتیال میں آنے کی بجائے اس سے بات کریں۔ اس پر تنقید کرنے، اس کو غلط کہنے کی بجائے اس کی باتوں کو غور سے سنے اوراس کی اصلاح لے لئے درست رائے کو سیکنڈ آپشن کے طور پر پیش کریں۔ اس سے کہے کہ "تم ٹھیک ہو لیکن اگر ایسا کیا جائے تو یہ زیادہ مناسب ہوگا"۔ مریض کی کنڈیشن کے پیش نظر اس کا معائنہ ماہرنفسیات کے پاس بھی کروایا جاسکتا۔ جسمانی بیماری یا معذوری کے باوجود نارمل زندگی گزاری جاسکتی ہے لیکن ذہنی تناؤ ایسا خاموش قاتل ہے جو خاندان کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیتا ہے اور خاندانوں سے ہی معاشرہ تشکیل پاتاہے۔