1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حمزہ خلیل/
  4. پاکستان بنی اسرائیل ایسوسی ایشن

پاکستان بنی اسرائیل ایسوسی ایشن

ایک عورت بنو قینقاع کے بازار میں کچھ سامان لے کر آئی اور بیچ کر(کسی ضرورت کے لئے) ایک سنار کے پاس جوکہ یہودی تھا، بیٹھ گئی۔ یہودیوں نے اس کا چہرہ کھلوانا چاہا مگر اس نے انکار کردیا۔ اس پر اس سنار نے چپکے سے اس کے کپڑے کا نچلا کنارہ پچھلی طرف باندھ دیا اور اسے کچھ خبر نہ ہوئی۔ جب وہ اٹھی اور بے پردہ ہوگئی تو یہودیوں نے قہقہ لگایا۔ اس پر اس عورت نے چیخ و پکار شروع کردی، جسے سن کر ایک مسلمان نے اس سنار پر حملہ کردیا اور اسے مار ڈالا۔ جوابا" یہودیوں نے اس مسلمان پر حملہ کرکے اس کو مار ڈالا۔ اس کے بعد مقتول مسلمان کے گھر والوں نے شور مچایا اور یہود کے خلاف مسلمانوں سے فریاد کی نتیجہ یہ ہواکہ مسلمان اور بنی قینقاع کے یہودیوں میں بلوہ ہوگیا۔ اس کی اطلاع بنی پاکﷺ کوملی تو آپﷺ نے مدینہ کا انتظام ابولبابہ بن عبدالمنذر کوسونپا اور خود حضرت حمزہ کے ہاتھ مسلمانوں کا پہرا دے کر لشکر لے کر بنو قینقاع کا رخ کیا۔ انہوں نے آپﷺ کو دیکھا تو گڑھیوں میں قلعہ بند ہوگئے۔ آپﷺ نے ان کا سختی سے محاصرہ کیا۔ یہ جمعہ کا دن تھا اور شوال دو ہجری کی 15 تاریخ تھی۔ یہ محاصرہ پندرہ روز تک جاری رہا۔ پھر اللہ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔ اللہ کی سنت یہ ہے کہ جب وہ کسی قوم کو شکست وہزیمت سے دوچار کرتا ہے تو ان کے دلوں میں رعب ڈال دیتا ہے۔ چنانچہ بنوقینقاع نے اس شرط پر ہتھیار ڈال دئیے کہ آپﷺان کی جان ومال، آل و اولاد اور عورتوں کے بارے میں جو فیصلہ کریں گے انہیں منظورہوگا۔ اس کے بعد آپﷺ کے حکم پر ان سب کو باندھ دیا گیا۔ بالآخر آپ نے ان سے ریاعت کا معاملہ کیا اور ان سب کی جان بخش دی۔ البتہ ان کو حکم دیا کہ مدینہ سے نکل جائیں اور آپﷺ کے پڑوس میں نہ رہیں، چنانچہ یہ سب شام کی طرف چلے گئے۔

یہود کی منافقت جنگ بدر کے بعد انتہا کو پہنچ چکی تھی، انہوں نے کھلم کھلا شرو عداوت کا مظاہرہ کیا اور علی الاعلان بغاوت اور ایذارسانی پر اتر آئے۔ اس طرح تین یہودی قبائل میں سب سے بدمعاش بنو قینقاع تھا۔ یہ لوگ مدینہ کے اندر تھے ان کا محلہ انہی کے نام سے موسوم تھا۔ یہ لوگ پیشے کے اعتبار سے سنار، لوہار اور برتن ساز تھے۔ ان پیشوں کی وجہ سے ان کے ہر آدمی کے پاس وافر مقدار میں جنگی سامان موجود تھا۔ ان کے مردان جنگ کی تعداد سات سو تھی اور وہ مدینے کے سب سے بہادر یہودی تھے۔ انہوں نے سب سے پہلے عہد شکنی کی۔ جو مسلمان ان کے بازار میں جاتا اس سے مذاق و استہزاء کرتےاور اسے اذیت پہنچاتے۔ حتٰی کہ مسلمان عورتوں سے بھی چھیٹر چھاڑ شروع کی گئی۔ اس اطرح جب صورتحال زیادہ سنگین ہوگئی اور ان کی سرکشی خاصی بڑھ گئی تو آپﷺ نے انہیں جمع فرمایا اور وعظ ونصیحت کی اور رشد و ہدایت کی دعوت دیتے ہوئے ظلم وبغاوت کے انچام سے ڈرایا لیکن ان کی بدمعاشی اور غرور میں کچھ اور ہی اضافہ ہوگیا۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں وعظ کیا کہ "اے جماعت یہود! اس سے پہلے کہ تم پر بھی ویسی ہی مارپڑے جیسی قریش پر پڑ چکی ہے، اسلام قبول کرلو" انہوں نے کہا " اے محمد (ﷺ)! تمہیں اس بناء پر خود فریبی میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے کہ تمہاری مڈ بھیڑ قریش کے اناڑی اور ناآشنائے جنگ لوگوں سے ہوئی اور تم نے انہیں مارلیا۔ اگر تمہاری لٹرائی ہم سے ہوگئی تو پتہ چل جائے گا کہ ہم مرد ہیں اور ہمارے جیسے لوگوں سے تمہیں پالانہ پڑا ہوگا” بنو قنقاع نے جوجواب دیا تھا اس کا مطلب صاف صاف اعلان جنگ تھا۔ اوپر بیان کئے گئے واقعات انتہائی مختصر ہیں۔ واقعات کا ایک تسلسل تھا جس کے بعد رسالت مابﷺ نے یہودیوں کو مدینہ سے نکل جانے کا حکم دیا۔

یہودیت کا شماردنیا کے قدیم مذاہب میں ہوتا ہے۔ اس مذہب کے آخری پیغمبرحضرت موسیٰ علیہ سلام ہے، ان کی مقدس کتاب تورات ہے۔ ان کا اللہ کے متعلق وہی عقیدہ ہے جو کہ اسلام کا ہے۔ حضرت موسیٰ نسل ابراہیم سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا تعلق ملک فلسطین و شام سے تھا۔ اسلام سے قبل یہود کے تین قبائل مدینہ میں آباد تھے ان میں بنو نصیر، بنو قینقاع اور بنو قریظہ زیادہ اہم ہیں۔ بنو قینقاع لوہار، سنار اور ماہر جنگ سازی تھے بنو نصیر کا ذریعہ معاش کھجوروں کو پیدا کرکے ان کی فروخت کرنا تھاجبکہ بنو قریظہ کا ذریعہ معاش شراب سے منسلک تھا۔ یہ قبائل اکثر آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے تھے۔

متحدہ ہندوستان میں یہودیوں کی تاریخ کے بارے میں کچھ زیادہ تو نہیں کہا جاسکتالیکن آپ اس بات سے اندازہ لگا سکتے ہے کہ 1936 میں ہندوستان میں عام انتخابات ہوئے جس میں کراچی میں کونسلر کے لئے ہونے والے انتخابات میں ابراہام روبن کامیاب قرار پائے تھے، اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ے کہ یہودیوں کی تعداد اس وقت اس قدر تھی کہ ان کا کونسلر تعینات ہوگیا یا پھر ان کے تعلقات دوسرے مذاہب کے ساتھ بہت اچھے ہو گے۔ ابراہام روبن ایک یہودی تنظیم "بنی اسرائیل ایسوسی ایشن" کے عہدیدار بھی تھے، تقسیم کے بعد اس تنظیم کے نام میں پاکستان کا اضافہ کیا گیا تھا۔ اس تنظیم کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ اس کو 1893 میں قائم کیا گیا تھا۔ انیسویں صدی میں یہودی کمیونٹی کے تحفظ کے لئے بہت سی تنظیموں کی بنیاد دکھی گئی تھی جن کا مقصد یہودیوں کے حقوق کی حفاظت اور یہودیت کا پرچار کرنا تھا۔ یہ اپنی کمیونٹی کو سستے گھر بنا کر بھی دیتے تھے اور ان کی مالی امداد بھی کرتے تھے۔ ان تنظیموں کو دنیا بھر کے یہودیوں کی طرف سے مالی امداد کی جاتی تھی۔ ان تنظیموں میں نوجوان یہودی پیش پیش تھے۔ ان تنظیموں میں " ینگ مین یہودی ایسوسی ایشن" اور "کراچی بنی اسرائیل ریلیف فنڈ" زیادہ اہم ہے۔ 1911 تک کراچی کی آبادی کا 0.3 فیصد یہودیوں پر مشتمل تھا۔ 1947 میں تقسیم ہند کے وقت 1300 کے قریب یہودی کراچی میں آباد تھے۔ ان کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ یہ انیسویں صدی میں مہاراشٹر سے ہجرت کرکے کراچی میں آباد ہوئے تھے۔ بعد ازاں 1948 میں اسرائیل کے قیام کے ساتھ کچھ یہاں سے ہجرت کرگئے اور بعدازاں عرب اسرائیل جنگ کے بعد کچھ مزید یہودی یہاں سے منتقل ہوگئے تھے، ان میں سے زیادہ تر ایران کے شہر فارس میں جاکر آباد ہوئے۔ ایک اعداد و شمار کے مطابق اس وقت 500 کے قریب یہودی کراچی میں آباد ہے۔ یہودیوں کی ایک مذہبی عبادت گاہ "امن کلیسہ کے سٹار" کے نام سے کراچی کے علاقے کرنل جمیل سٹریٹ، نشاط روڈ پرموجود تھی۔ اس کلیسہ کو سلیمان ڈیوڈ نے 1893 میں قائم کیاتھا۔ پھر 1912 میں مزید توسیع سلیمان کے بیٹیوں، گرشون سلیمان اور راحامین سلیمان کی طرف سے کی گئی۔ 1916-1918 میں یہودی کمیونٹی کی جانب سے اس کلیسہ کی حدود میں عبرانی سکول بھی قائم کیا گیا تھا۔ 1918 میں یہاں ناتھن ابراہیم حال بھی قائم کیا گیا تھا۔ یہاں ایک سائن بورڈ بھی آویزاں ہے جہاں "پاکستان بنی اسرائیل ایسوسی ایشن" کے الفاظ کندہ ہے۔ یہاں ایک مسجد بھی قائم ہے جس کا نام بنی اسرائیل مسجد ہے۔ اس کے داخلی دروازے پر کندہ ہے کہ "صرف یہودیوں کو یہاں داخلے کی اجازت ہے"۔ کراچی کے علاقے میو شاہ میں بنی اسرائیل قبرستان بھی موجود ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں پانچ ہزار یہودی دفن ہے۔ اس قبرستان کی حدود گزرتے وقت کے ساتھ اب سکڑ رہی ہے۔ اس کی دیکھ بھال کرنے والا محمد ابراہیم اب 62 سال کا ہوچکا ہے اس کا کہنا ہے کہ سال بعد کچھ لوگ یہاں آتے ہے اور قبرستان کی مرمت اور دیکھ بھال کے لئے کچھ رقم دے کر چلے جاتے ہیں۔

1960 کی دہائی میں پشاور کے پاس بھی یہودیوں کی کمیونٹی موجود تھی اور یہاں ان کی دو مذہبی عبادت گاہیں بھی قائم تھی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعدادوشمار کے مطابق 2017 تک 900 یہودی ووٹر رجسٹر تھے۔ اس وقت پاکستان میں جتنے بھی یہودی موجود ہے یہ اپنی شناخت چھپاتےہے۔ یہودی اپنے آپ کو پارسی یا مسیحی بتاتے ہے جس وجہ سے ان کی اصل تعداد کا علم ہونا ممکن نہیں ہے۔