1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حمزہ خلیل/
  4. پاکستانی سیاست اور راستے کے حقوق

پاکستانی سیاست اور راستے کے حقوق

پاکستان میں عام انتخابات 25 جولائی 2018 کو منعقد ہوئے جس میں تمام اعتراضات اور شک و شکوک کے باوجود پاکستان تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کی۔ عمران خان ملک کے وزیراعظم کے طور پر منتخب ہوئے۔ پاکستان تحریک انصاف کو واضح کامیابی کے باوجود حکومت بنانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کے سدباب کے لئے پاکستان تحریک انصاف اپنے تمام تر وسائل استعمال کر تی رہی، ایک عام رائے میں تمام تر وسائل کی ایک تعریف مالی وسائل بھی بنتی ہے۔ صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ (نواز شریف) کی کامیابی کے باوجود تحریک انصاف نے اس کا راستہ روکا اور اپنے تمام تر وسائل استعمال کر کے وہ اس پوزیشن پر آگئی کہ وہ پنجاب کو بھی اپنے تحت کے نیچے رکھے، عثمان بزدار وزیراعلیٰ پنجاب مقرر ہوئے۔ اس سے پہلے 11 مئی 2013 کو منعقد ہونے والےعام انتخابات میں مسلم لیگ (نوازشریف) نے اپنی حکومت قائم کی، دھاندلی کے الزامات لگےاور تحریک انصاف نے دھرنہ سیاست کا آغاز کیا۔ یہ سیاسی تماشاتقریبا موجودہ الیکشن کے قریب قریب تک چلتا رہا۔ اس دھرنا سیاست میں حسب توفیق طاہر القادری صاحب نے بھی حصہ ڈالا، کچھ کچھ نیکی متحدہ قومی مومنٹ نے بھی سمیٹی جبکہ کچھ ثواب اتحاد بین المسلمین نے بھی حاصل کیا۔ ان کے مقاصد اپنے اپنے تھے لیکن دونوں کا مقصد سڑکوں کو بند کرنا تھا۔

یہ تمام جماعتیں پاکستان کے مختلف علاقوں، چوکوں، سڑکوں پر قابض رہی اور ان کو بند کر کے رکھا۔ یہ اپنے مطالبات میں اتنے ہی سچے تھے جیسا ہر کوئی اپنی نظر میں ہوتا ہے۔ ہم بطور قوم سڑکوں کو بند کرنے کا بہت شوق رکھتے ہیں، ہمیں کسی بھی مسئلے کواٹھا کرشہروں کی مصروف سڑکوں کو بند کرکے خوشی محسوس ہوتی ہیں۔ ہمیں راستے کے حقوق پامال کرنے کا بہت شوق ہے کیونکہ ہم اس کی اہمیت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ دو خاندان آپسی دشمنی کی بنیاد پر ایک دوسرے کا بندہ قتل کردیتے ہیں تو یہ قصور بھی سٹرک کا۔ کوئی بدقسمت جلدی میں ریلوے کے بند پھاٹک کو اوپر سے یا کچھوے کی طرح نیچے سے پھلانگ کر ریل گاڑی کے نیچے کچلا جائے تو یہ قصور بھی سڑک کا۔ کوئی ماں یا باپ معاشرتی بے حسی کے باعث اپنے بچو ں کو زہر دے کر خود بھی اپنے آپ کو سزا کے لئے خدا کے حضور پیش کردے تو یہ قصور بھی سڑک کا۔ واپڈا کسی کو بغیر بجلی کے زیادہ بل بجھوا دے تو یہ قصور بھی سڑک کا۔ ہمارے ہاں سڑک کے بے شمار قصور ہے لیکن ہم خود کو اس کا مالک بھی سمجھتے ہیں۔ کسی شادی یا فوتگی کے موقع پر سڑکیں یا گلیاں ہمارے باپ کی ملکیت میں شامل ہوجاتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ ہر خوشی اور غم میں ہمیں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کا راستہ دیتی ہے۔ اس کے باعث ہم رزق کماتے ہیں اور اپنے خاندان کا پیٹ پالتے ہیں۔ میں آپ کی راہنمائی کے لئے دسارتھ مانجھی کا ایک قصہ بیان کرنا چاہوں گا۔

دسارتھ مانجھی ہندوستانی شہری تھا اس کا انتقال 17 اگست 2007 کو ہوا۔ اسے سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا، تدفین کے وقت اس کی عمر 73 سال تھی، یہ بطور پیشہ مزدور تھا۔ 1960 میں لوگ اسے پاگل سمجھنے لگے، اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ یہ نفسیاتی مریض ہے، یہ بھارتی ریاست بہار میں رہتا تھا۔ 1960 میں اس نے ایک ہتھوڑا اور چیھنی اٹھائی "اتری" کے علاقے میں ایک پہاڑ کو توڑنا شروع کردیا۔ یہ صبح کو گھر سے نکلتا، سارا دن اپنے کام میں مشغول رہتا اور رات کو گھر لوٹ جاتا اور اکثر اسی جگہ سوبھی جاتا تھا۔ اس کی عمر ڈھل رہی تھی لیکن وہ اپنے کام میں مگن رہتا تھا، ڈھلتی عمر کے ساتھ یہ اکثر بیمار بھی رہنے لگا تھا۔ یہ سخت اور کھردری ساخت والے پہاڑ کو توڑتا رہتا تھا۔ 1960 سے 1982 تک یہ اپنے کام میں مگن رہا، یہ 22 سال تک تن تنہا کام کرتا رہا اور اس دوران اس نےپہاڑ کو کاٹ کر 15 کلومیٹر کا راستہ بنایا جوکہ 30 فٹ چوڑا بھی تھا اور "اتری " کو "وزیر گنج " سے ملاتا تھا۔ اس سے پہلے لوگوں کو وزیر گنج پہنچے کے لئے 55 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑتا تھا اور اب 40 کلومیٹر کا اضافی راستہ بچنے لگا۔ دسارتھ مانجھی کا یہ کام اس علاقے کے لوگوں کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں تھا۔ دسارتھ مانجھی کے اس کام کی دھوم تمام بھارت میں پھیل گئی، حکومتی سطح پر بھی اس کو سراہا گیا۔ دسارتھ مانجھی کی اس خدمت کو سراہنے کے لئے ہدایت کار "کیتن مہتا" نے "مانجھی" فلم بھی بنائی جس میں نوازلدین اور رادھیبکا نے مرکزی کردار ادا کیا۔ دسارتھ کا یہ عظیم کام ایک دکھ کے نتیجے میں تھا۔ انسان کو جب دکھ لگتا ہے تو اس کے اعضاء شل ہونے لگتے ہیں وہ اپنا آپ چھوڑ دیتا ہے۔ کچھ دکھی انسان "ولی" بن جاتے ہیں، "ولی" بنے کا کوئی لمبا چھوڑا فارمولا نہیں ہے، بس اپنے کام چھوڑ کر مخلوق خدا کے کام میں لگ جانے والا "ولی" ہے لیکن ہمارے مسلمانوں میں "ولی" کا ایک لمبا چوڑا فارمولا ہے اور اس کے لئے مسلمان ہونا بھی اولین شرط ہے۔ بہرحال دسارتھ مانجھی کی بیوی "فالگونی" اکثر بیمار رہتی تھی، اس کا علاج چل رہا تھا ایک رات اس پر بیماری کا شدید حملہ ہوا اور قریب ترین ڈاکٹر 70 کلومیٹر دور تھا جس کے باعث وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ وسارتھ مانجھی پر غم کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے اس پر روز ایک قیامت ہوتی، وہ روز میدان حشر کی لمبی لائن میں لگتا اور روز یہ اذیت ناک سفر بغیر کسی فیصلے کے اگلے دن تک موخر کردیا جاتا تھا۔ تنہائی کے ساتھی وقت کے قید سے آزاد ہوجاتے ہیں وقت ان کی ذات میں رک جاتا ہےا ور لین اس کے اعتراف میں بھاگنے لگتا ہے۔ دسارتھ مانجھی کو دکھ کی دلدل میں ایک ٹہنی نظر آئی، اس نے ٹہنی پر پکڑ مضبوط کی اور رہتی دنیا تک اپنا نام امر کرگیا۔

دسارتھ مانجھی کو راستے کے حقوق کا پتا تھا، یہ ایک ہتھوڑا اور چیھنی اٹھاکر پہاڑتوڑنے نکل پڑا۔ یہ بات بلکل ایسی ہی معلوم ہوتی ہے جیسے میں آپ سے کہوں میرے ساتھ چلو ہم آسمان سے لٹکی ہوئی رسی پکڑ کر آسمان پر چڑھتے ہیں۔ راستے کے حقوق میں صرف سڑکیں نہیں آتی ہر وہ راستہ جس کا تعلق کسی نظام سے ہو، اس کے بھی اپنے حقوق ہوتے ہیں۔ پاکستان معرض وجود میں آیا، مسلم لیگ کانگرس کے مقابلے میں ایک نئی جماعت تھی اور یہ صرف قیام پاکستان سے سات سال پہلے ہی اپنی منزل کا تعین کرسکی تھی، ان کو ایک نئی مملکت چلانے کا موقع ملا۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ہمارے حکمران راستہ روکنے میں لگے رہے۔ جو دوسروں کے سہارے حکومت پر قابض ہوتا دوسرے اس کی ٹانگیں کھینچنے میں لگ جاتے۔ لیکن اس ذہنی سوچ کے پیچھے ایک مکمل کہانی ہے انسان نے معرض وجود میں آنے کے بعد حدود سے تجاوز کرنا سیکھا۔ جس کا آغاز حضرت آدم کے ممنوع پھل کھانے سے ہوتا ہے، پھر اس کے بعد انسان نے ایک دوسرے کے حقوق غضب کرنا سیکھے، یہ ایک دوسرے پر قابص ہونے لگا۔ آپ انسانی تاریخ اٹھا کر دیکھ لے ہر طاقت ور قوم کمزور قوم کے علاقوں پر قابص ہوتی رہی۔ یہ مذہبی اور غیر مذہبی ہر طبقے کی کہانی ہے، لیکن طاقت کا یہ نشہ سب سے آخر میں مسلمانوں پر غالب آیا۔ یہ بھی بزورطاقت دنیا پر قابضہ ہوتےرہے تاہم رسالت مابﷺ کی تعلیمات کے نتیجے میں مسلمان اخلاقیات کے اعلیٰ مقام پر تھے۔ انسان کا اصل کبھی نہ کبھی اپنا رنگ دکھا دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ رسالت مابﷺ کی رخلت کے فوری بعد مسلمان اقتدار کے لئے پھر ایک دوسرے کے سامنے کھڑے تھے تاہم یہ معاملہ حضرت عمر فاروق کی دانشمندی کے نتیجے میں بغیر کسی نقصان کے حل ہوگیا۔ ہندوستان پر مسلمان بزور طاقت قابض رہے پھر ان کی عیاشی کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے یورپی اقوام کو ان پر حاکم بنا دیا۔ ہندوستان نے ساری ترقی برطانیہ کے دور حکومت میں کی۔ پھر مسلمانوں کو اپنا ملک ملا لیکن ان کی سوچ وہی تھی حکمرانوں والی، بزور طاقت اقتدار پر قبضہ کرنے والی، انہوں نے اپنے ملک میں بھی یہی کام شروع کر دیا اور ابھی تک کرتے آرہے ہیں۔ اسی سوچ کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں جب بھی عام انتخابات کا انعقاد کیا گیاہارنے والی جماعت نے کامیاب جماعت پر دھاندلی کا الزام لگایا۔ اسے سوچ کے نتیجے میں پاکستان اپنا آدھا حصہ گنوا بیٹھا۔

راستے کے حقوق کے بارے میں رسالت مابﷺ نے بھی بہت تلقین کی ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر مکہ میں داخل ہونے سے پہلے مسلمانوں کا قافلہ مکہ سے کچھ دور خیمہ زن ہوا اور اس بے ترتیبی سے خیمے نصب ہوئے کہ ان کے درمیان سے گزرنا محال تھا۔ رسالت مابﷺ کو یہ بات ناگوار گزری اور آپ کی ناراضگی پر خیموں کو اکھاڑ کر دوبارہ سےدرست ترتیب کے ساتھ نصب کیا گیا۔ ہمارے مذہب میں مسلمان حکمران کی اطاعت کرنا بھی لازمی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستانیوں کی اخلاقی تربیت کی جائے، سیاسی پارٹیوں کو مضبوط کیا جائے، سیاسی عدم برداش کو ختم کیاجائے۔ اپنی شکست کو تسلیم کرنا کوئی غلط بات نہیں۔ کوئی بھی ہمیشہ حکمران نہیں رہ سکتا اور کوئی بھی مکمل غلط یا صحیح نہیں ہوسکتا۔ پاکستان میں رجسٹر تمام پارٹیاں پاکستانی ہے کوئی بھارتی پارٹی پاکستان میں رجسٹر نہیں کہ یہ ملک ہمارے ہاتھوں سے چلا جائے گا۔ نئے آنے والوں کو موقع نہیں بلکہ کچھ دن دینے میں کوئی قباہت نہیں لیکن جو حکمران باربار اپنے فیصلوں کو بدلتے ہو ان کے متعلق اپنی سوچ میں بدلاوں لانابھی ضروری ہوتا ہے۔