1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حمزہ خلیل/
  4. راشٹریہ سویم سیوکس سنگھ

راشٹریہ سویم سیوکس سنگھ

ہندوستان کی تاریخ کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ قیام پاکستان پر مسلمانوں میں باہم اتفاق نہیں پایا جا تا تھا اور نہ ہی مسلم لیگ کو مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت سمجھا جاتا تھا۔ قائد اعظم پر کفر کے فتوے بھی ان دنوں اخبارات میں گردش کرتے رہتے تھے۔ مسلمانوں کی آنکھ کھولنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے 1940 میں کانگرسی وزارتوں کا اہتمام کیا۔ لیکن عوامی سطح پرباہمی روابط میں اب بھی خوش فہمیوں کے سلسلے چل رہے تھے۔ تحریک پاکستان باقاعدہ طور پر 1940 کے بعد شروع ہوتی ہے۔ تقسیم ہند کے ابتدائی اعلان کے بعد مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ چکی تھی، پاکستان میں ضم ہونے والے علاقوں کے مسلمان اپنے گھر وں پر پاکستانی پرچم لہرا چکے تھے۔ ان علاقوں میں ہونے والے پنچائتی بیٹھک کے دوران مقامی سکھوں اور ہندوں کو مسلمان کی طرف سے امن کی ضمانت دی گئی اور مسلمان کی طرف سے ان کے گھروں کی حفاظت کی غرض سے پہروں کا بھی اہتمام کیا گیا۔ تقسیم کے دوسرے اعلان کے بعد بہت سے پاکستانی علاقوں کو ہندوستان میں شامل کردیا گیا تھا۔ تقسیم کے پہلے اعلان کے ساتھ ہی مسلم لیگ کے ذمہ داران نے برٹش حکمرانوں کو اس تشویش سے آگا ہ کیا تھا کہ سکھوں اور ہندوؤں کی طرف سے فساد کا خطرہ ہے، اس خطرے کے تدارک کے لئے بانڈری کمیشن کی جانب سے بانڈری فورس تشکیل دی گئی اور مقامی تھانوں میں یہ احکامات صادر ہوئے کہ لوگوں کو غیر مسلحہ کیا جائے۔ یہ فورس زیادہ تر سکھوں اور ہندوؤں پر مشتمل تھی اور مقامی احکامات جن تھانوں میں ارسال ہوئے یہاں سے صرف مسلمانوں کو غیر مسلحہ کیا گیا، مسلمان سپاہیوں کو جبری رخصت دی گئی اور غیر مسلحہ بھی کیا گیا اور یہی اقدام افواج کے مسلم سپاہیوں کے ساتھ روا رکھا گیا تھا۔ تقسیم کے بعد مسلمان قافلے پاکستان کی طرف رواں تھے ان کی حفاظت کے لئے بانڈری کمیشن کی افواج پہلے ان کو تلاشی کی غرص سے غیر مسلحہ کرتی تھی یہاں تک کہ ان سے چاقو اور ڈندے بھی ضبظ کر لئے جاتے تھے پھر کچھ ہی فاصلے پر موجود سکھوں کے جھنڈ ان پر حملہ کردیتے تھے۔ نوجوانوں اور بوڑھوں کو مار دیا جاتا تھا۔ بچوں کو برچھیوں پر اچھا لا جاتا تھا۔ عورتوں کو آپس میں تقسیم کر دیا جاتا تھا، کچھ عورتیں موقعے پر ان کی درندگی کا شکار بنتی تھی اور کچھ کو فروخت کر دیا جاتا تھا۔ حملے والی جگہ پر انسانی جسم کے کٹے پھٹے اعضاء، خون میں لٹ پٹ لاشیں، عورتوں کے برہنہ جسم اور ان کے علاوہ آوارہ کتے اور گدھ کی آمد کا ایک تسلسل پایا جاتا تھا۔ ( تقسیم ہند کے مظالم سے متعلق اگر تفصیل سے پڑھنا مقصود ہو تو میرا کالم "تقسیم ہند اور سکھ مسلم تنازعہ" کا مطالعہ کیجیئے)
کیا یہ فسادات کسی اچانک سانحہ کا نتیجہ تھے؟ کیا یہ یک دم پھوٹ پڑے تھےیا کوئی اس کا پشت پناہ تھا؟ ہندوستان میں27 ستمبر 1925 کو راشٹریہ سویم سیوکس سنگھ کی بنیاد رکھی گئی۔ اس کا مرکزی دفتر ناگ پور میں قائم کیا گیا، یہ جماعت بھارتیاں جنتا پارٹی کی ایک ذیلی تنظیم تھی تاہم اب اس کا شمار دنیا کی بڑی جماعتوں میں کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد ہندوؤں کو متحد کرنے کے لئے ان کی تربیت کرنا تھا، جس کی بنیاد صرف ہندوؤں قومیت تھی۔ تاہم یہ جماعت اپنے قیام سے ہی شدت پسندی اور دہشت گردی میں ملوث رہی ہے۔ یہ جماعت گجرات اور 1940 میں کانگری وزارتوں کے دوران مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث رہی۔ برٹش راج کے دوران 24 جنوری 1947 کو صوبہ پنجاب کی حکمران جماعت یونینسٹ پارٹی کی سفارش پر اس جماعت پر پابندی لگی کیونکہ یہ جماعت پنجاب میں مشکوک سرگرمیوں میں ملوث پائی گئی تھئ لیکن مخص 24 جنوری 1947 کو یہ پابندی اٹھا لی گئی کیونکہ یہ دہشت گرد جماعت برٹش راج کے منظور نظر تھی۔ جنوری 1948میں مہاتما گاندھی کو قتل کر دیا گیا جس میں اس جماعت کے ایک سنیئر ممبر شامل تھے جس کی پاداش میں 2 فروری 1948 میں اس جماعت پر ایک دفعہ پھر پابندی لگا دی گئی۔ 11 جولائی 1949 کو جماعت پر پابندی پھر سے اٹھا لی گئی تھی اس مشروط شرط کے ساتھ کہ یہ جماعت آئین کے ساتھ وفا دار رہے گی، ہندوستانی جھنڈے کا احترام کریں گی اور اپنا تمام کام سیاسی جدوجہد کے ذریعے کریں گی۔ 1975 سے 1977 تک ہندوستان میں مذہبی فسادات عروج پر تھے جس میں یہ جماعت ملوث تھی اور ان کو ایک دفعہ پھر پابندیوں کا سامنا رہا۔ 1992 میں اس جماعت کے دہشت گردوں نے بابری مسجد کو شہید کر دیا اور پھر اسے پابندیوں کو سامنا کرنا پڑا۔ تاہم یہ تمام پابندی عارضی ہوتی تھی تاکہ فریق مخالف کو بے وقوف بنایا جا سکے۔
1971 کی پاک بھارت جنگ سے پہلے اس جماعت کے ارکان پاکستانی افواج کی وردیوں میں ملبوس ہو کر مشرقی پاکستان میں داخل ہوچکے تھے۔ انہوں نے وہاں عام عوام کا قتل عام کیا، عورتوں کی عزتیں پامال کی گئی اور عوام میں یہ تاثر پیدا کیا کہ ان جرام میں پاکستانی افواج ملوث ہے۔ 1965 کی جنگ میں بھی اس جماعت کے دہشت گرد انڈین افواج کے شانا بشانہ لڑتے رہے ہیں۔
بھارتی وزیراعظم نریندمودی وہ دوسرے وزیراعظم ہیں جو کہ اس دہشت گرد تنظیم کے رکن تھے اس سے پہلے اٹل بہاری واجپائی کا تعلق بھی اسی جماعت سے تھا۔ نریند مودی نے 2002 کے گجرات فسادات میں دہشت گردوں کی سرکاری سیٹ پر بیٹھ کر پشت پناہی کی جس میں لاکھوں مسلمانوں کو زندہ جلا دیا گیا تھا۔ اس جماعت کے گناہوں کی تفضل اتنی لمبی ہے کہ اس کے لئے ایک کالم تو کیا بہت ساری کتابیں بھی کم پڑتی ہے۔
راشٹریہ سویم سیوکس سنگھ کے ہندوستان میں بہت سے ٹریننگ کیمپس موجود ہے جس میں ہندوؤں کو جسمانی دفاع کے علاوہ دوسروں پر حملے کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔ یہاں باقاعدہ تلواریں، برچھیاں، نیزے، چاقو، بندوقیں الغرض چھوٹے سے چھوٹے ہتھیار سے لے کر جدید اسلحہ تک، سب کے استعمال کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ یہ دہشت گرد تنظیم اور اس کی متعدد ذیلی تنظیمیں ہندوستان کی دوسری دفاعی لائن سمجھی جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق صرف ہندوستان میں اس دہشت گرد تنظیم کے پانچ سے چھ ملین رکن ہے۔
راشٹریہ سویم سیوکس سنگھ کے اقدامات سے یہ بات واضح ہے کہ یہ ایک دہشت گرد تنظیم ہے لیکن نہ تو کبھی کسی انٹرنیشنل آرگنائزیشن نے اس پر پابندی کو مطالبہ کیا اور نہ ہی پاکستان نے کسی بھی لیول پر اس تنظیم کے خلاف آواز اٹھا ئی ہے۔ اس تنظیم کے اہلکاروں کو مقبوضہ کشمیر میں منتقل کیا جا رہا ہے یہاں کسی بھی بڑے سانحہ کی آمد آمد ہے۔ حال ہی میں بھارتی صوبے آسام میں 19 لاکھ مسلمانوں کی شہریت معطل کر کے انہیں بے ساروسامان کر دیا گیا۔ ان کے متعلق خیال ہے کہ یہ کسی زمانے میں بنگال اور برما سے ہجرت کرکےیہاں آباد ہوئے تھے تاہم ان کی شہریت آباواجداد سے ہندوستانی چلی آہی تھی اور انہیں ووٹ دینے کا حق بھی حاصل تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے پاکستان اور ہندوستان میں سے ہندوستان کو اپنا گھر قرار دیا اور اس کے ساتھ وفاداریوں کو نبھاتے رہے تھے۔ حالیہ خبروں کے مطابق آسام میں راشٹریہ سویم سیوکس سنگھ کے دہشت گرد پہنچ چکے ہیں اور یہاں مسلمانوں کے قتل کی کچھ وارداتیں بھی سامنے آئی ہے اس کے علاوہ مسلمانوں کے گھروں کو نظر آتش کرنا اور ان کی املاک پر قبصہ کرنےکا کام بھی شروع ہو چکاہے۔ ہندوستانی حکومت کی طرف سے ان مسلمانوں کی گرفتاریوں اور جلاوطنی کا سلسلہ جاری ہے اور اس سلسلے میں خاص ٹارچر سیل بھی قائم ہو چکے ہیں۔
اسلام امن کا دین ہے لیکن یہ اپنے پیروکاروں کی حفاظت کو بھی ملحوظ خاطر رکھتا ہے۔ اسلام میں جہاد کو جو مقام اور مرتبہ حاصل ہے وہ کسی دوسری عبادت کو حاصل نہیں ہے۔ پاکستان میں اسلام کا جوفرقہ اکثریت میں موجود ہے ان کی نمائندہ جماعتوں سے جہاد یا اس کی محبت کا زیادہ امکان موجود نہیں ہے لیکن اسلام کے دوسرے فرقوں کی نمائندہ جماعتیں دشمن کے سامنے اپنی گردنیں کٹوانے کو باعث فخر سمجھتی ہے اور یہ بے شک پاکستان کی دوسری دفاعی لائن بھی تھی لیکن 9/11 کے حملو ں کے بعد دنیا کا اس طرح چلنا لازمی تھا جس طرح امریکہ کا حکم ہو۔ چنانچہ ہم نے صدر پرویز مشرف کے دور اقدار میں پاکستان کی دوسری دفاعی لائن کو برباد کر دیا۔ پاکستان کی یہ دوسری دفاع لائن نہ صرف ریاست پاکستان کے دفاع کی ضامن تھی بلکہ یہ ملک بھر میں رفاحی و فلاحی کاموں میں بھی پیش پیش تھی۔ ہمیں پاکستان کے دفاع کے لئے محب دطنی پر مبنی فیصلے کرنے ہونگے، یہ ملک ہمارا وہ قلعہ ہے جس کے بغیر ہمارا جینا ممکن نہیں ہے۔