1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. اسماعیل آفتاب/
  4. بائیسواں جنم دن

بائیسواں جنم دن

اپنی بد صورت سی شکل سنوارنے کے لئے دن میں کئی بار آئینہ دیکھتا ہوں مگر سال میں ایک بار معمول سے کچھ زیادہ دیر آئینے کے سامنے کھڑا ہو کہ آئینے میں موجود اپنے عکس پہ ذرا غور سے نظر ڈالتا ہوں۔ خود میں ہونے والی کچھ تبدیلیوں کا جائزہ لیتا ہوں۔ اور کچھ نئی تبدیلیوں کی امنگ اور کچھ عادات کو ختم کرے کا عہد کرتا ہوں۔ کیوں کہ وہ دن میرے جنم دن کا ہوتا ہے۔ اور آج بھی میں نے کچھ ایسا ہی کیا کیوں کہ آج میرا جنم دن ہےآج میں نےزندگی کی بائیس بہاریں دیکھ لیں ہیں۔ میری آنکھیں آئینے میں موجود عکس پر جمی رہیں مگر میرے ذہن میں اپنی بائیس سالہ زندگی کی فلم چل رہی تھی۔ میں ان بائیس سالوں میں بچپن سے لڑکپن اور لڑکپن سے جوانی تک کا فاصلہ طے کر آیا۔ میں گھٹنوں کے بل اپنے آپ کو آگے دھکیلنے سے، سنبھلنا، کھیلنا، اٹھنا، چلنا، دوڑنا سیکھ گیا۔ میں نے زبان کی خاموشی سے، لکنت سے الفاظ کی ادائیگی، پھر الفاظ کو یاد رکھنا، پھر روانی سے بولنا، پھر لکھنا اور پھرپڑھنا سیکھ لیا۔ ذہن کی وسعت ایک گلی، محلے، شہر، ملک سے پوری دنیا تک پھیل گئی۔ ذہن کی نا سمجھی سے ذہن کی پختگی تک کا سفرمیں نے انہیں بائیس سالوں میں طے کیا۔ میں کتابوں کے اسباق سے سیکھ کے عملی زندگی میں داخل بھی ہوگیا۔ محبت سے آشنائی، دل لگی، اور آخر کار دل کی کرچیاں ہونا بھی انہیں بائیس سالوں کی دین ہے۔ زندگی میں دوست بنتے رہے، دوست روٹھتےرہے اور تجربات بڑھتے رہے۔ میں شاگردی سے نکل کر بفضل خدا استاد جیسے عظیم عہدے پر فائز ہو گیا۔ آہستہ آہستہ زندگی موڑ لیتی گئی میں سیکھتا گیا، اور آج زندگی کی بائیس بہاریں مکمل ہو گئی۔ نیز یہ کہ میری زندگی کا پہلا مرحلہ احتتام پذیر ہو گیا اور اس مرحلے میں میں نے پرورش پائی، اپنی جڑیں مضبوط کی۔ اب میں زندگی کے دوسرے مرحلے میں شامل ہوگیا ہوں۔ اور اب مجھے مزید مضبوط ہونا ہے۔ کیوں کہ اب میں چیلنجز کے دور میں شامل ہو گیاہوں۔ میں اپنے جنم دن پر خوش تھا۔ میں ایک لمحے کے لئے چونکا، مجھے میری منزل کی یاد آگئی، اس منزل کی یاد جو سب کی ایک ہے مگر سب اس سے غافل ہیں، وہ منزل مٹی ہے۔ ہاں۔ ہماری حقیقی منزل، جو ہمیں دن میں تین بار پکارتی ہے۔ آج وہ بھی بہت خوش ہو گی، کیوں نا وہ خوش ہو؟ کیوں کہ آج اس کا بھی تو ایک سال کا انتظار کم ہوگیا ہے۔ میں نے سوچا ہم بھی کتنے نالائق ہیں جو زندگی کی کتاب سے ایک سال کم ہونے کا جشن مناتے ہیں۔ بڑی خوشی سے کیک کاٹتے ہیں، گھر سجھاتے ہیں لیکن اپنی منزل کی تیاری نہیں کرتے۔ ہاں، بلکل ہم بہت نالائق ہیں۔

میرے کانوں میں میرے نام کی پکار گھونجی، میں چونک گیا، میں آئینے کے سامنے کھڑا تھا، آئینہ کچھ صاف دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ دھندلا تھا، اس لئے نہیں کہ اس پہ کوئی گرد تھی، اس لئے کہ میری آنکھوں میں موجود آنسو، آئینے کو صاف دیکھنے میں آڑے آرہے تھی، میں نےرومال نکالا اپنی آنکھیں صاف کیں۔ ذرا سا نوٹکی والی مسکان دی، اور ہلکے سے کہا،

"ہیپی برتھ ڈے ٹو می"

اور اب مجھے باہر جانا تھا، کیوں کہ باہر میرا انتظار کیا جا رہا تھا اورمجھے کیک کاٹنا تھا۔