1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. اسماعیل آفتاب/
  4. دوسرا ٹکڑہ

دوسرا ٹکڑہ

یہ حضرت موسی ؑ کا زمانہ تھا، موسی ؑ پر تورات نازل ہوئی، تو، موسی ؑ نے لوگوں سے کہا کہ اسے پڑھو، اوراس پر عمل کرو، اللہ کی طرف سے موسی ؑ کو پیغام ہوا کہ اس کتاب کو زینت سے رکھو، اس کی بے حرمتی نہ کرو، موسی ؑ نے اللہ سے کہا کہ ہمارے پاس، اس کتاب کو زیب و زینت سے رکھنے کے لئے درکار میٹیریل کے لئے سرمایہ موجود نہیں، بحکم خدا، جبرائیل ؑ، حضرت موسی ؑ کے پاس آئے، انہیں زر جمع کرنے کے ایک طریقے کا عمل سکھلایا، اُس کیمیا گری کے لئے مخصوص گھاس درکار تھی، وہ گھاس تین جگہوں سے میسر ہوسکتی تھی، جب ان تینوں گھاسوں کو ملایا جانے کے بعد ایک خاص عمل کیا جاتا تھا، تو تانبہ بھی سونے میں تبدیل ہوجاتا تھا، حضرت موسی ؑ نے اس گھاس کی ضرورت کے پیش نظر "یوشع ؑ"، "کالوت"اور "قارون" کو ایک ایک رقعہ لکھ کر بھیجا، اس خط میں گھاس کے حوالہ سے ہدایات لکھیں تھیں، ان میں سے قارون بہت چالاک تھا، اس نے پہلے "حضرت یوشع ؑ" اور پھر "کالوت" کے رقعہ کا بغور مشاہدہ کیا، اس نے ان دونوں خطوں اور اپنے خط میں لکھیں ہدایات سے ذر جمع کرنے کے اُس گُرکو سیکھ لیا، اُس نے چپکے سے اپنے گھر میں کیمیا گری کرنا شروع کر دی، قارون نے اس کیمیا گری سے بہت سارا خزانہ جمع کر لیا، جیسے جیسے قارون کے پاس مال و دولت کے انبار لگتے گئے، اس کی لالچ و حرص بھی ویسے ویسے بلندیوں پر جانے لگی، مال و دولت کی حرص بڑھتی چلی گئی، وہ دولت کی محبت و حرص میں مبتلا ہو کر بخیل ہو گیا، روایت میں ہے کہ، اس کی دولت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے خزانے کی کنجیوں کا وزن ستر اونٹ تھا، اور کئی کئی زور آور مزدور اس کی کنجیاں اٹھانے پر مقرر تھے، اور ہر ایک کنجی کا وزن نیم درہم سنگ تھا، جب اسے اس کے جمع کئے گئے بیش بہا مال میں سے زکوۃ دینے کو کہا گیا، تو اس نے سراسر منع کر دیا، وہ کہنے لگا کہ یہ سارا مال اس نے کیمیا گری سے جمع کیا ہے، اس میں سے کسی غریب، مسکین، یتیم کا کوئی حصہ نہیں، اس نے اپنے اس مال سے ایک عالیشان مکان بنوایا، جس کی اونچائی اسی گز بلند تھی، لالچ و حرص میں مبتلا ہو کر، وہ ایمان سے بھی پھر گیا، جب اسے کہا جاتا کہ اپنی دنیا پر آخرت کو فوقیت دو، تووہ کہتا کہ آخرت کس کام کی، وہ اپنی دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتا، اور جب وہ گرفت میں آیا، تو اس کواور، اس کے مال کو، جس پر اسے بہت ناز تھا، زمین میں دبا دیا گیا، نہ اس کا مال اس کے کسی کام آیا، نہ طاقت، اس کو، مع اس کے مال و متاع زمین میں دھنسا دیا گیا، اس نے مال کی خاطر اپنی آخرت بھی تباہ کر لی، بوجہ حرص و لالچ کے۔
آپ اپنے اردگرد غور کر کے دیکھ لیجئے، آپ کو بہت سارے ایسے چھوٹے چھوٹے قارون ملیں گے، جو ہمہ وقت دولت کمانے اور دولت جمع کرنے میں لگے رہتے ہیں، جو دولت کی لالچ و حرص کی خاطر زندگی کا چین و سکون تک برباد کر دیتے ہیں، ہر ایک، ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لئے کوشاں ہے، مال و دولت کی نمود و نمائش، اور آرائش و زیبائش میں مبتلا ہے، ان کی لالچ و حرص تھمنے کا نام نہیں لیتی، کیونکہ یہ لالچ و حرص تو اس کتے کی مانند ہوتیں ہیں، کہ جب وہ بھوکا ہو تا ہے توگوشت کے ایک ٹکڑے کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے، اور جب اسے ایک ٹکڑہ مل جاتا ہے، تو وہ دوسرے ٹکڑے کوحاصل کرنے کی لالچ میں مبتلا ہو جاتا ہے، اور اسی لالچ میں اپنے پہلے ٹکڑے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔