1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. اسماعیل آفتاب/
  4. رکیئے مت‘ بڑھتے رہیے

رکیئے مت‘ بڑھتے رہیے

حصول کامیابی کے لئے ہم ہر وقت کوشاں رہتے ہیں، ہم میں سے ہر انسان کسی نہ کسی عہدے، کسی نہ کسی کام کو فرض منصبی بنانا چاہتا ہے، ہم میں سے ہر کوئی خوش بختی کے اس نقطہ پرپہنچنا چاہتاہے کہ جس کے بارے میں برنارڈ شاہ نے کہا تھا کہ "جس مقام پر انسان کی خواہش قلب اور فرض منصبی آپس میں آکر ملتیں ہیں، وہ مقام انسان کی خوش بختی کا ہوتا ہے"لیکن بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو خواہش قلب اور حاصل کامیابی کے درمیان حائل منازل کو طے کر پاتے ہیں، بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اس خوش بختی کو حاصل کر پاتے ہیں، کیوں؟ اس کی چند وجوہات ہیں، جس میں اہم اور بنیادی وجہ، جہاں سے انسان اپنے کامیابی کے سفر پر گامزن ہوتا ہے، وہ ہے "دل کی آواز"۔ جی، ہاں ! دل کی آواز، جو انسان اپنے دل کی آواز تک پہنچ جاتا ہے، جو اپنے دل کی کہی بات سمجھ جاتا ہے، وہ راہ کامیابی کی طرف نکل جاتا ہے، آپ کسی بھی کامیاب ترین شحص کی "آٹو بائیو گرافی" پڑھ لئجیے، یا پھر آپ کسی بھی کامیاب شحص کا انٹرویو سن لیجیے، وہ بھی آپ کو یہی کہتے نظر آئے گا، کہ اس کی دل کی آواز، ان کی خواہش قلب بنی، اور پھر اسی خواہش قلب کو حاصل کرنے کے لئے، محنت کی، لیکن المیہ، یہ ہے کہ ہم اُس کیٹیگری کے لوگوں میں شمار ہوتے ہیں کہ جنہوں نے کبھی اپنی آواز قلب کو سننے کی کوشش ہی نہیں کی، ہمارادل کس کام میں دلچسپی رکھتا ہے، ہمیں کوئی خبر نہیں، آپ اپنے آپ سے پوچھ لیجیئے، آپ کیا بننا چاہتے ہیں؟ یا جو کام آپ کر رہے ہیں، کیا آپ شروع سے اس کام میں دلچسپی رکھتے تھے، آپ کا دل آپ کو کیا کہتا تھا؟، یا پھر آپ کسی سے اس سوال کا جواب لینے کی کوشش کر کے دیکھ لیجئے، کہ وہ زندگی میں کیا مقام حاصل کرنا چاہتا ہے، آپ کو جواب میں ہلکی سی مسکان میں سارا معمہ حل محسوس ہو جائے گا، کیوں؟ کیونکہ ہم لوگ "بائے چوائس" نہیں "نائے چانس" کام کرتے ہیں، اس المیہ کی چند وجوہات میں، میں شعبہ تدریس سے منسلک اساتذہ کو بھی قصور وار سمجھتا ہوں، مگر وہ تذکرہ کسی اور دن، علیحدہ کالم میں کروں گا، ناکامی کی دوسری وجہ "ہار، یا مایوسی " ہے، ہم میں سے بہت سے لوگ جو دل کی آواز کو پہچاننے کی سعادت تو حاصل کر لیتے ہیں، مگر اس کے باوجود بھی وہ اس مقام کو حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں، کیوں؟ کیونکہ وہ جلد ہار مان لیتے ہیں، وہ جلد کوشش چھوڑ دیتے ہیں، یا پھر ان کا مزاج مستقل نہیں رہتا، وہ کوشش سے پہلے ہی اپنی نظریں اپنے گول سے پھیر لیتے ہیں، لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ کوئی انسان بھی آغاز سے پر فیکٹ نہیں ہوتا، کسی بھی کام کوسیکھنے میں پریکٹس درکار ہوتی ہے، اور پریکٹس کے لئے وقت۔ ، آپ سرچ کر کے دیکھ لیجئے، یا پھر آپ امیر ترین اور کامیاب ترین لوگوں کی فہرست نکال کر دیکھ لیجئے، آپ کو محنت، اور مستقل مزاجی نظر آئے گی، آپ یہ جان کر بھی دھنگ رہ جائیں گے، کہ ان کو بھی اپنی زندگی میں کہیں نہ کہیں، کبھی نہ کبھی، نکامی کا سامنا رہا ہوگا، مگر ان کے ارادے فولادی تھے، ان کے حوصلے بلند تھے، اور ان کو خود پر اعتماد تھا، جس کی بدولت آج وہ مقام خوش بختی پر ہیں کہ جہاں خواہش قلب اور فرض منصبی آپس میں آکر ملتے ہیں، مگر افسوس کہ ہم میں سے اکثر لوگ ایسے ہیں کہ جو کوشش تو کرتے ہیں مگر جب ان کو کسی ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ رُک جاتے ہیں، وہ ہار مان لیتے ہیں، وہ حوصلہ پست کر لیتے ہیں، وہ اپنے ارادے کمزور کر لیتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ اپنے مقصد، اپنی زندگی کے گول کو"اچیو" نہیں کر پاتے، لیکن جنہوں نے اپنا مقام حاصل کرنا ہوتا ہے، اور جنہوں نے اپنے خوابوں میں بسے مقام کو حقیقت کی رُوپ دینا ہوتا ہے، پھر وہ ناکامیوں سے مایوس نہیں ہوتے، اور ہر ناکامی کے بعد اپنے آپ کو "امپروو" کرتے ہیں، اور اپنی کوشش جاری رکھتے ہیں، وہ مایوس ہو کر رکتے نہیں، بلکہ بڑھتے رہتے ہیں، مسلسل بڑھتے رہتے ہیں، اور اُس مقام میں کو حاصل کرلیتے ہیں، جس کے لئے انہوں نے انتھک کوشش کی ہوتی ہے۔