1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. اسماعیل آفتاب/
  4. زہر

زہر

میں نے آج تک کسی دولت مند کو اس قدر پُرسکون، مطمئن اور خوش و خرم نہیں دیکھا جتنا کہ ایک متوسط انسان خوش و خرم زندگی کے مزے لیتا ہے، میں نے آج تک کسی امیر کے چہرے پہ وہ رونق، وہ چمک نہیں دیکھی جتنی کہ ایک عام آدمی کے چہرے کو منور کرتی ہے، جتنی ایک عام آدمی کو پُر مسرت رکھتی ہے، آج تک کسی صاحب قدر کو اتنا محفوظ و مطمئن نہیں دیکھا کہ جس طرح ایک عام آدمی بغیرکسی خوف و ڈر سے بنا کسی فکر و پریشانی سے گھومتا پھر تا ہے، میں نے کبھی غریب آدمی کو اتنا ڈرا ہوا نہیں دیکھا کہ جتنا ایک امیر اپنی دولت کے لئے مضطرب رہتا ہے، میں نے ایک امیر کو اتنا بے فکر و بے چین سوتے نہیں دیکھا کہ جتنا ایک غریب آدمی دنیا جہاں کی فکروں سے آزاد ہو اپنی نیند کے مزے لیتا ہے، ایسا کیوں ہے؟ اگر ایک غریب آدمی امیرآدمی کے موازنہ میں اتنی بہتر و مطمئن زندگی گزارتا ہے توپھر وہ دن رات امیر ہونے کی تگ و دو میں کیوں لگا رہتا ہے؟ کیوں امیر ہونے کی خواہش نفس میں دن، رات اور زندگی کے مزے کو برباد کرتا ہے؟ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایک متوسط آدمی جس طرز سکون میں رہتا ہے ایک امیر آدمی اُس کا تصورتک بھی نہیں کر پاتا، تو پھر؟ اس لئے کہ انسان لالچی ہے، یہ ہر وقت لالچ میں مبتلا رہتا ہے اور یہ لالچ انسان کو بے چین و بے سکون رکھتی ہے، ہر انسان دنیا کی ہر اعلیٰ سے اعلیٰ چیز کی خواہش کرتا ہے، جب وہ چیز پا لیتا ہے تو اس کی نا شکری کی حد تب بڑھتی ہے کہ جب اُس عطا سے بھی نفیس کسی اور شے کی خواہش کرنے لگتا ہے، ہم میں ہر انسان اپنی خواہشات میں بُنے شیش محل کو اصلی رُوپ دینے کے لئے ہمیشہ سر کردہ رہتے ہیں، حالانکہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ تکمیل خواہشا ت تو ناممکنات میں سے ہے، لیکن پھر بھی حال کے سکون کو مستقبل کی منصوبہ بندیوں میں تباہ و برباد کر دیتے ہیں، ہمیں لالچ نہ حال میں سکون نصیب ہونے دیتی ہے نہ مستقبل میں ہم اس سے استفادہ حاصل کر پاتے ہیں، لالچ کی ہوس تو ہمیں اپنے اپنوں سے دور کردیتی ہے، ہم تو اپنے آپ تک کو بھول جاتے ہیں، اس لئے لالچ بھی ایک قسم کا زہر ہے۔
مولانا رومی سے کسی نے پوچھا"زہر کیا ہے؟" مولانا نے جواب دیا، "ہر وہ چیز جو انسان کے پاس ضرورت سے زیادہ ہو، وہ زہر ہے۔ اگر قوت، قدر، دولت، بھوک، لالچ، محبت اور نفرت بھی حد سے تجاوز کر جائے تو یہ بھی زہر ہیں"۔
آپ اندازہ کر کے دیکھ لیجئے، آج ایک صاحب قدر، قوت و طاقت سے لیس لوگوں سے انصاف کس طرح پامال کیا جا رہا ہے، ایک صاحب حیثیت جو مال و دولت اور ہر طرح کا پروٹوکول رکھتا ہے وہ ایک غریب، نادار آدمی کو کیا سمجھتا ہے؟ وہ اس کی تذلیل، اس کی توہین یا اس کی حرمت پامال کرنے میں کیا ہتک، کیا جھجھک محسوس کرتاہے؟وہ کسی سے جانور سے بھی زیادہ بدتر سلوک کرے تو کیسی پرواہ؟ آج ایسا ہوتے اکثر دیکھا جاتا ہے۔
دولت کی حرص و ہوس بھی گناہ کبیرہ تک کروا دیتی ہے، کہیں زمین و جائیداد کی خاطربھائی بھائی کی کوٹ کچہریوں میں تذلیل کرواتا ہے تو کہیں بھائی بھائی کے خون کا پیاسا ہے، کیوں؟ یہ مال و دولت کہاں تک جائے گی؟ یہ تو قارعون کی لالچ کی آبیاری نہ کر سکی یہ تو اس سے اس کا ایمان تک چھین کے لے گئی، آج ایک بھائی کے ہاتھ چند دولت لگے تو وہ اپنے خون کے رشتوں تک سے منہ پھیر لیتا ہے، لیکن اتنا خیال تک نہیں کرتا کہ کفن کی جیبیں نہیں ہواکرتیں، جب بھوک بھی حد سے تجاوز کرتی ہے تو انسان کو ایسے کام کرنے پر مجبور کروا دیتی ہے کہ انسان کی عزت و حرمت تک پامال ہو جاتی ہے، اور جب محبت مجاز بھی حدیں عبور کرتی ہے تو انسان سے انسان کا رُوپ تک مسخ کروا دیتی ہے، اور نفرت تو انسان سے انسان کا اندر تک نوچ نوچ کر چھین لیتی ہے مگر پھر بھی اس کی تسکین نہیں ہوا کرتی، تو کیا یہ زہر نہیں؟ جی، ہاں، بلکل ہر وہ چیز جو انسان کے پاس اس کی ضرارت سے زیادہ ہو وہ زہر ہے، چاہے وہ "قوت، قدر، دولت، لالچ، نفرت یا پھر محبت ہو"۔