1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. اسماعیل آفتاب/
  4. چار کتاباں آسمانوں لتھیاں‘ تے پنجواں لتھا ڈنڈا

چار کتاباں آسمانوں لتھیاں‘ تے پنجواں لتھا ڈنڈا

جب سے شعبہ تدریس سے منسلک ہوا ہوں، تب سے ہی طالب علموں کی سزا بارے محتاط قسم کا رویہ رہتا ہے، آج کل سوشل میڈیا کے اس دور میں وہ بات کہاں کہ جب والدین خود اساتذہ کو کہا کرتے تھے کہ "گوشت آپ کا، ہڈیاں ہماری"، اب تو صاحب قدراساتذہ کی ہتک عزت کا کہرام مچا ہوا ہے، آئے روز کوئی نہ کوئی واقعہ زینت خبر بنا ہوتا ہے، جس میں اساتذہ کی کسی طرح سے بھی سزا دینے کے الزامات ہوتے ہیں، ہمیں بھی بلکل اسی طرح سزا ملا کرتی تھی، لیکن تب کوئی بھی انسان سراپا احتجاج نہ ہوا کرتا تھا، اب کہ جب خود اس شعبہ سے منسلک ہوا ہوں، تو حد سے زیادہ اختیاط کی کوشش رہتی ہے، اس بارے مختلف اساتذہ اپنی اپنی آراء و تجاویز پیش کرتے ہیں، کچھ "مار نہیں پیار"والے نظام کو بہتر سمجھتے ہیں تو کچھ "چار کتاباں آسمانوں لتھیاں، تے پنجواں لتھا ڈنڈا" جیسی اصطلاح کو اپنے دلائل و براہین میں پیش کرتے ہیں، مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں گیارھوں جماعت کا طالب علم تھا، ہمارے ایک نئے استاد ہمیں انگریزی پڑھانے کے لئے آئے تھے، انھوں نے آتے ہی اپنا تعارف باقیوں سے منفرد اندازمیں اس طرح کرایا، کہ اپنے نام کے رعب و دبدبے کی دھاک ہمارے دل میں بٹھانے کی لئے اپنے طریقہ سزا کی کچھ کہانیاں سنا کر ہمیں ڈرانے، دھمکانے کی کوشش کی، ا نگریزی کے محاوراہ کہ "FIRST EXPRESSION IS LAST EXPRESSION" کی اصطلاح بہت کاری گر ثابت ہوئی کہ خوف و ڈر سے ہم میں سے کسی نے بشمول میں کے، ان کے دومہینے کے تدریسی دورانیے میں ایک لفظ بھی سوائے رٹے کے دل سے یاد کیا ہو، ان کا انداز سزا، اور پھر بس ہم جیسے تیسے کر کے نقل جیسے حربے استعمال کر کے یا کچھ بھی کر کے، بچنے کے چکر میں ہوا کرتے تھے، کہ کہیں ہمیں بھی پوری کلاس کے سامنے باعث عبرت نہ بنا دیا جائے۔
لہٰذااگر استاد طالب علم پر"چار کتاباں آسمانوں لتھیاں، تے پنجواں لتھا ڈنڈا" جیسے اصطلاح کا استعمال کریں گے تو کیا طالب علم احسن طریقے سے کارکرگی دکھا سکے گا؟ نہیں، ہرگز نہیں، بلکہ دہشت و ڈر میں وہ تو بھر پور طریقہ سے کاکردگی دکھانے سے عاری رہے گا، آپ ترقی یافتہ ممالک کے سکول سسٹم ملاخظہ کر لیجئے، وہاں کوئی مار، کوئی چھری کاتصور بھی نہیں، بلکہ دنیا کے128ممالک، بشمول یورپ کے طالب علموں کو ماریا کسی قسم کی سزاسے منع کیا گیا، اور 69 ممالک بشمول پاکستان میں مار کا تصور موجود ہے، جس میں اب ہمارے ملک میں بھی حکومت سزا نہ دینے کا نوٹیفیکیشن جاری کر چکی ہے، ایک منٹ کے لئے آپ یہ تصور کیجئے، ہم میں سے ہر انسان اعمال کو اچھا یا برا کیوں سمجھتا ہے، اس لئے کہ یہ جزا اور سزا کا تصور ہی ہے، جو ہمیں راہ راست پہ قائم رہنے اور برے کاموں سے پرہیز کرنے کا پابند رکھتا ہے، اور اگر جزا اور سزا کا تصور نہ ہوتا، کیا ہم بھی کھلم کھلا نفس کی تابعداری اور اصولوں کی مخالفت نہ کرتے؟اگر اسی کلیہ کو نظام تدریس کی رُو سے پرکھا جائے تو کیا یہ جزا اور سزا کا ہی تصور نہیں ہے کہ طالب علم استاد کا پڑھایا گیا سبق احسن طریقہ سے یاد کرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ضرورت سے زیادہ رعب و دبدبہ طالب علم کی تنقیدی سوچ اور تخلیقی صلاحیتوں کے درمیان ایک رکاوٹ ثابت ہو سکتی ہے، جب ایک ذہن ہر قسم کے خوف و بدبے سے آزاد ہو گا تو وہ کارکردگی کی بہترین حالت میں ہو گا، اس کاانتہائے سطح تک استعمال ممکن ہو گا، خود اعتمادی طالب علم کی زندگی کا اہم ترین عنصر ہوتا ہے، جب سزا کا عمل بھی لیول سے بڑھ جائے تو یہ بھی ڈگمگانے لگتا ہے، ہمارے تعلیمی اداروں میں طالب علم اپنے ذہن کے خیالات کو الفاظ کی شکل دینے سے عاری ہوتے ہیں، تو کیا اس میں استاد کا کوئی کردار نہیں؟ مگر اگر طالب علم کو اعتماد میں لیا جائے، اور اس کے ذہن کی سوچ کو مکمل آزادی اور اظہار خیا ل کا مکمل موقع بخشا جائے تو طالب علم کی تخلیقی سوچ ضرور نکھر سکتی ہے، لہٰذا جزا و سزا کا تصور بجا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ طالب علم کی تخلیقی سوچ کے ذمہ دار بھی اساتذہ ہوتے ہیں، خود اعتمادی، سوچ میں وسعت، اور اخلاق میں نکھار وہ اہم عنصرہیں، جو "چار کتاباں آسمانوں لتھیاں، تے پنجواں لتھا ڈنڈا" جیسی دلیلوں پہ عمل پیرا ہو کر طالب علم میں پیدا نہیں کئے جا سکتے۔