1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. اسماعیل آفتاب/
  4. احتساب 2

احتساب 2

بطور مسلمان اپنے مذہب اسلام کے اصولوں کی پاسداری ہم پر فرض ہے۔ اگر ہم اسلامی تعلیمات اور نبی پاک ﷺکی حیات مبارکہ کا بغور جائزہ لیں اور ہم اسلام کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا احتساب کریں کہ آیا ہم کامل مومن ہیں یا نہیں؟کیا ہم انہیں تعلیمات کی پیروی کر رہے ہیں ہیں کہ جس کی تلقین نبی پاک ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں ہمیں کی ہے؟ کیا اتفاق و اتحاد کی وہ مثالیں جو نبی پاک ﷺ نے قائم کی ہیں ہم ان پر عمل پیرا ہو رہے ہیں کہ نہیں؟ کیونکہ ایک کامل مومن کے لئے نبی پاکﷺ کے اسوہ حسنہ کی پیروی سب سے اہم ہے۔ آئیے ہم دور حاضر کی حالت کا جائزہ اسلامی اصولوں کے تحت کرتے ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ ہم مسلمان ایک جماعت ہونے کے باوجود بھی تفرقوں میں بٹ چکے ہیں۔ ہم نے اپنی مساجد بھی اپنے اپنے مسلک تک محدود کر لی ہیں۔ ہم نے سنی، دیوبند، اہلحدیث کی مساجد تک علیحدہ کر لی ہیں۔ اور ہم اپنے مسلک کے علاوہ مسجد میں نماز ادا کرنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔ لیکن جب ہم اس دنیا کی رنگینیوں سے نکال کر قبر کی اندھیرے میں پہنچائے جائے گے تو ہمیں پہلا سوال نماز کا ہوگا۔ بلکہ یہ نہیں کہ نماز کس فرقہ کی مسجد میں ادا کی تھی یا کس میں نہیں۔ تفرقوں میں بٹی مساجد کا حال بھی ویرانیوں کے علاوہ کچھ اور نہیں۔ ہم کس طرح دوسروں کی مخالفت میں اپنا دفاع کریں گے۔ کیونکہ ہم مسلمان ہی مسلمانوں پر کیچر اچھالتے اور برا بھلا کہتے ہیں۔ باہمی اتفاق کے درمیان ذاتی انا، غروروتکبر یا کسی رنجش کو گھسیٹ دیتے ہیں۔ اسلام ہمیں اخوت و مساوات کا درس دیتا ہے مگر ہم اس چھوڑھ کر ذاتی تعصبات اور اور ذات پات کے نظام پہ گامزن ہو گئے ہیں۔ ایثار و قربانی کی مثالیں صرف کتابوں کے بند اوراق تک محدود رہ گئی ہیں۔ دنیا کی رنگینیوں نے ہمیں اپنے رنگ میں رنگ دیاہے۔ ہم دنیا کے کاموں کو اپنے عقائد پر ترجیح دیتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کو چھوڑ کر غیراسلامی روایات کی پیروی کرتے ہیں۔ ہم اپنی اصل منزل سے غافل ہو کر اس عارضی دنیا کی تیاریوں میں مشغول ہیں جو کسی سے وفا نہیں کرتی۔ ہم نے سفر کی اس جگہ کو اپنا ٹھکانامستقل سمجھ لیا ہے۔ ہم نے دین کی ذمہ داریاں مولوی اورقاریوں کو سونپ دی ہیں۔ اس دنیا کا کوئی بھی انسان جو طالب رہنمائی ہے، وہ قرآن اور اسوہ حسنہ سے رہمنائی حاصل کر سکتا ہے مگر ہمارے گھروں میں قرآن لحاف میں لپیٹ کر ایک اونچی جگہ رکھ دیا جاتا ہے مگراس کو کھول کر پڑھا، یا سمجھا نہیں جاتاکہ اس ہدایت کے چشمے سے سبق لیا جا سکے۔

حقوق اللہ اور حقوق العباد کی پاسداری بھی ہم پر فرض ہے۔ فرمان نبی پاک ﷺ ہے کہ ’’ ایک کامل مومن وہ ہے کہ جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا محفوظ رہے‘‘ لیکن ہماری زبان سے کون محفوظ ہے؟ ہم نا انصافی، غیبت، چغلی، بغض و کینہ، جھوٹ، حسدو لالچ جیسی لعنتوں میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ صلہ رحمی کا یہ عالم ہے کہ ایک ماں کے پیٹ سے جنم لینے والے، ایک دوسرے کو دیکھنا تک گوارہ نہیں کرتے۔ اس دنیا کی عارضی زمین و جائیداد کی حاطر اپنے ہی بھائیوں کی کوٹ، کچہریوں میں تذلیل کروائی جاتی ہے۔ افسوس کہ ہم تکمیل دین کے بعد بھی جاہلانہ رسومات کی پیروی کرتے ہیں۔ ہمارے ظاہر اور باطن میں بھی تضاد پایا جاتا ہے۔ ہم کسی کے منہ پہ اس کی تعریفوں کے انبار لگا دیتے ہیں اور چاپلوسی کی کوئی حد باقی نہیں رہنے دیتے مگراس کی کمر کے پیچھے اس کی بدخیلیوں، اور برائیوں میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ عورتیں گھر کی چار دیواری میں عزت و پردہ کے ساتھ بیٹھنا قید سمجھتی ہیں اوربغیر پردہ کے حیا و عزت کی حدیں عبور کر کہ خود کو کھلے ذہن کی مالک اور لبرل کہتی ہیں۔ ایسی جگہ جہاں عورتیں اور مرد بغیر پردہ کے گھومیں اسلام میں بد ترین جگہ سمجھی جاتی ہے جس کی مثال ہمیں بازار وں میں عورتوں کا بغیر پردہ گھومنے سے ملتی ہے۔ حالت زار یہ ہے کہ ہمیں وضو کے فرائض، سنتوں اور صحیح طریقہ سے بھی آشنائی تک نہیں ہے۔ ہمیں اپنے مسائل کا دین کے لحاظ حل بھی معلوم نہیں۔ ہم اپنے ہمسائے کے حق بھی ادا نہیں کرتے۔ ہمارے صدقہ، خیرات اور زکوۃ میں بھی دکھاوا پایا جاتا ہے۔ ہم کسی کی مدد بھی اپنے بلے بلے بنانے کے لئے کرتے ہیں۔ ہم اپنی برائیوں کے چرچے بھی بڑے مان کے ساتھ کرتے ہیں۔ گالی گلوچ جیسی غلیظ لعنت کو بھی معاشرے میں ایک عام حیثیت دی جاتی ہے۔ بلکہ یوں کہہ لیں کہ ہم اپنی دوستی کی گہرائی کا ثبوت اتنی ہی بلنگی گالی سے دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے بے حیائی کو ہم سے پوشیدہ نہیں رہنے دی۔ بلکہ اس کی بدولت تو دنیا میں ’’پورنوگرافی‘‘ ٹاپ رینکنگ میں آگئی ہے۔

ہماری حالت موجودہ کو اقبالؒ نے بہت بخوبی بیان کیا ہے کہ

گونگی ہو گئی آج کچھ زبان کہتے کہتے

ہچکچا گیا خود کو مسلماں کہتے کہتے

یہ بات نہیں کہ مجھے اس پر یقین نہیں

بس ڈر گیا خود صاحب ایماں کہتے کہتے

توفیق نہ ہوئی مجھ کو اک وقت نماز کی

اور چپ ہوا موذن اذان کہتے کہتے

کسی کافر نے پوچھا کہ کونسا مہینہ ہے

شرم سے پانی ہاتھ سے گر گیا رمضان کہتے کہتے

میری الماری میں گرد سے اٹی کتاب کا جو پوچھا

میں گڑ گیا زمین میں قرآن کہتے کہتے

یہ سن کہ چپ سادھ لی اقبال اس نے

ہوں لگا جیسے رک گیا، وہ مجھے حیوان کہتے کہتے