1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. اسماعیل آفتاب/
  4. عدالت

عدالت

آپ کسی دن تھوڑا سا وقت نکال کر اکیلے بیٹھ جایئے، اور آپ، اپنے ہی اندر اپنی عدالت لگا کر اپنے نفس پر مقدمہ درج کر دیجئیے، آپ اپنے نفس کو مجرم، اور دل کو جج تصور کر لیجئے، اور نفس کا احتساب کرکے، اپنے دل سے فیصلہ کروا لیجئے، اگر آپ غیر جانبداری کے ساتھ دل سے فیصلہ کروانے کے قابل ہو گئے، اور آپ نے اس فیصلہ کو دل سے تسلیم کرلیا، تو اس دن آپ کی آدھی پریشانیاں، لڑائی جھگڑے اور قطع تعلقیوں کا حل بھی نکل آئے گا، اور اس کے ساتھ ساتھ آپ سکون و امن بھی ملے گا اور آپ صلہ رحمی پر بھی عمل کرنے لگے گے، آپ کسی سے بھی جھگڑے کی وجہ دریافت کر لیجئے، یا کسی کی لڑائی کا سبب پوچھ لیجئے، فریقین تمام تر قصور کا نزلہ مخالفین پر گراتے نظر آئیں گے، کوئی اپنی غلطی کو تسلیم کرتا نظر نہیں آئے گا، اگر ایک فریق جلد یا بدیر اپنی غلطی کا اعتراف کرلے تو معاملہ چند لمحوں میں سلجھ جاتا ہے، تب وہ بات یا حادثہ کسی بھی لڑائی جھگڑے کا موجب نہیں بنتا، کیونکہ ہم میں ہر شخص اپنی ذہنیت کے مطابق انا کا پتلہ ہے، لہذا ہم ہر بات کو ایک الگ، عجیب انداز سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ہم کسی بھی غلطی کے اعتراف کو اپنی ذلت، اور معافی مانگنے کو اپنی شان میں کمی کے متبادل خیال کرتے ہیں، جس کی وجہ سے ہم، اپنے اثرورسوخ کے مطابق اپنی اچھی، یا بری بات پر ڈٹے رہتے ہیں، ہم قصور وار ہو کر بھی اپنے قصور کو تسلیم نہیں کرتے، اور مخالف کو نیچا دکھانے اور اس کی تذلیل کی کوشش کرتے ہیں، کیونکہ ہم لوگ"میں" کے مریض ہیں، جس کی وجہ سے ہماری "میں" ہمیں، ہمارے رشتوں کی مہک سے محروم رکھتی ہے، بدولت جس کے ہم رشتوں کی اساسیت اور حب سے دوبالا نہیں ہو پاتے، آپ اپنے معاشرے میں اس بات کی آبزرویشن کر کے دیکھ لیجئے، آپ کو ایک ہی ماں کے پیٹ سے جنم لینے والے، اپنے ہی بھائیوں کو دیکھنا تک گوارہ نہیں کرتے، مگر یہ انا، غصہ اور "میں" کا مرض تب ایک پچھتاوے کے ساتھ اتر جاتا ہے، جب اسی بھائی کی روح، اس کے جسم کو گوشت پوست کا ایک ڈھیر کر کے پرواز کر جاتی ہے، ہم اپنی "میں"کے لئے چھوٹی چھوٹی باتوں پر اپنی اور اپنے خاندان کی زندگیاں تک داؤ پر لگا دیتے ہیں، آپ کبھی ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچ لیجئے، کیا یہ ہماری "میں" ہماری کسی ٹھاٹھ باٹھ کا موجب ہے، یا پھر ہماری "میں" خاردار کانٹوں کی طرح، اندر ہی اندر سے ہمیں کاٹ کاٹ کر چھلنی کر دیتی ہے، جو ہماری زندگیوں سے خوشیوں کو چھین لیتی ہے، ہمیں امن و سکون و آشتی سے کہیں دور لے جاتی ہے، آپ نے جس دن اپنی عدالت میں اس مقدمے کا فیصلہ کر دیا، اور اس فیصلے کو دل و جان سے تسلیم کر لیا، اس دن آپ کی زندگی آشفتگی سے واپس مڑ کر امن و شانتی کی طرف گامزن ہو جائی گی، آپ کو اپنی زندگی بھی دلچسپ و شاندار لگنے لگے گی، اور آپ زندگی سے لطف انداز بھی ہونے لگے گے۔