1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. اسماعیل آفتاب/
  4. اسلام میں عورت کا مقام اور موجودہ دور میں کردار

اسلام میں عورت کا مقام اور موجودہ دور میں کردار

اسلام سے پہلے عورت کو دنیا میں ایک ادنیٰ مقام حاصل تھا، عورت کو باعث بے عزتی سمجھا جاتا تھا، قبیلے میں صرف بیٹوں کو ہی اہمیت حاصل تھی، عورت کی پیدائش کو قبیلے میں ناک کٹوانے کے مترادف سمجھا جاتا تھا، بچیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا، اور کئی ایسے دل دہلا دینے والے ظلم و ستم کہ جن کو سننے سے انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں، ان کا سامنا عورت کو دور جاہلیت میں کرنا پڑتا تھا۔
یہ سب کچھ ایک عورت کے لئے تھادور جہالت میں، ولادت نبی پاکﷺ سے پہلے، پھر میرے آقا ﷺ تاجدار ختم نبوت، تاجدار مدینہ اس دنیا میں تشریف لائے، اوردور جاہلیت کے معاشرے میں عورت کو حاصل اس مقام کی مذمت کی، اور عورت کو ایک ایسا مقام اعلیٰ بخشا کہ، اگرعورت بیوی کے روپ میں تو اسے شوہرکے نصف ایمان کی وارث قرار دیا، اور اگر عورت بیٹی کے روپ میں ہے تو اسے رحمت قرار دیا، ایسی رحمت کہ جب اللہ کی ذات کسی پر خوشی کی انتہا کو ہوتی ہے تو اللہ کی ذات اسے بیٹی کی رحمت سے نوازتی ہے، اور اگر عورت ماں کے روپ میں ہے تو اس کے قدموں تلے جنت، ماں کی فضیلت کے بارے نبی پاک ﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے کہ اگر میری ماں زندہ ہوتیں اور مجھے میری نماز پڑھنے میں پکارتیں تو میں نماز چھوڑ کر ماں کی خدمت میں حاضر ہو جاتا، ایسا اعلیٰ اور ارفعٰ مقام اسلام سے پہلے کسی اور مذہب نے عورت کو عطا نہ کیا، جو نبی پاکﷺ کی ذات اقدس نے آکر عورت کو عطا کیا، عورت کے پاس اس مقام کو اور بھی نفیس بنانے حیاء کا زیور عطا کیا۔
مولانا رومی ؒ سے کسی عورت نے پوچھا کہ یہ کیا بات ہوئی کی مرد جب چاہیں، جہاں چاہیں بغیر کسی روک رکاوٹ کے جائیں، لیکن عورت گھر کی دہلیز سے بھی باہر قدم رکھے تو پردہ میں۔
مولانا رومیؒ نے جواب دیا، مرد مانند ایک لوہا کہ جو موسم کی ہر شدت کو برداشت کر لیتا ہے، مگر عورت مانند اس ہیرا کہ جس کو جوہری اپنی سجی، چمکتی دکان میں، ایک لوہے کی مضبوط تجوری کے اندر بنے اس سے بھی محفوظ دراز میں ریشم پر چمکا کہ رکھتا ہے کہ جوہری کو اس ہیرا کی قدرو قیمت کا اندازہ ہوتا ہے، وہ اس بات کو جانتا ہوتا ہے کہ اگر اس ہیرا پر ذرہ سی خراش بھی آ گئی تو اس کی قدر میں بہت فرق آجائے گا۔
بلکل، اسی طرح عورت مانند ایک ہیرا کے ہے کہ حیا ء و پردہ اس کا ایک ایسا لبادہ ہے کہ جو اس کے مقام و رتبے میں فرق نہیں آنے دیتا، آج آپ اردگر عورت کی نمودونمائش کا اندازہ کر لیجئیے، زیب و آرئش، فیشن یا بے حیائی کی انتہا کہ جس سے خود خود بے حیائی بھی شرما جائے، مسلم ملک کی دین دار عورت چار دیواری کو قید تصور کرتی ہے، بے حیائی کو فیشن کی چادر سے ڈھانپنے کی کوشش میں خود کو حسارے میں ڈال رکھا ہے، مفہوم فرمان مصطفی ہے کہ حیا ء، نیکی اور بدی کے درمیان پردہ ہے، ایک اور جگہ ارشاد فرمایا، جس کا مفہوم یہ ہے کہ جس میں حیا ء نہیں تو وہ جو چاہے کرے۔
عورت کی جو خوب صورتی پردے میں ہے، لبرل ازم کے اس عالم میں وہی پردہ فیشن کے رنگ میں اس قدر گندھ چکا ہے کہ ستر کے لوازمات تک کو پورا نہیں کرتا، بازار جس کو اسلام میں اچھی جگہ تصور نہیں کیا جاتا، آج کل کس طرح عورتوں سے بھرا رہتا ہے، اسلامی تعلیمات کے منافی، کیا کیا دور حاضر میں وقوع پذیر ہو رہا ہے، کسے سے ڈھکا چھپا نہیں۔