1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. اسماعیل آفتاب/
  4. احتساب

احتساب

آئین کسی بھی ملک کے ان تمام بنیادی اصولوں کی عکاسی کرتا ہے جس پر مملکت کی بنیاد ہوتی ہے۔ وہ تمام عمل لائحہ جس کی مدد سے قانون بنائے جاتے ہیں اور قانون سازی کا انتظامی ڈھانچہ موجود ہوتا ہے۔ عوام کے بنیادی حقوق، مملکت کے قوائدوضوابط بھی درج ہوتے ہیں۔

ہر ادارے کے اپنے قوائدوضوابط ہوتے ہیں اور اس پر عمل کرنے والا اچھا ملازم سمجھا جاتا ہے، اسی طرح ملک کے قوائدوضوابط پر عمل پیرا ہونے والا اچھا شہری کہلاتا ہے۔ آئیے ہم اچھے شہری کے خوبیاں تلاش کر کہ اپنا احتساب کریں کہ آیا ہم اچھے شہری ہیں کہ نہیں؟

اچھے شہری کی چند بنیادی خوبیوں میں ’’ قانون کی پاسداری، ایمانداری، ادائیگی فرض، دوسروں کی عزت و اچھا سلوک، وطن کی محبت، دوسروں کے حق کی ادائیگی و نظم و ضبط ‘‘ شامل ہیں۔ ہم کتنے قانون کے پاسدار ہیں ؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ شا ئد ہم دنیا کی واحد قوم ہیں جس کو قانون کی پاسداری کرنے میں ہتک محسوس ہوتی ہے۔ قطار میں لگنا توہین آمیز لگتاہے۔ قانون کے مطابق درکار کاروائی کا وقت ذلالت لگتا ہے۔ کیو نکہ ہم لوگ اقتدار پسند ہیں۔ ہم قانون کی پیروی کرنے سے زیادہ فوکس پرسنل ریلیشن ( ذاتی تعلقات ) پر کرتے ہیں۔ ہم اپنے ہر کام کو سر انجام دینے میں ’’ سب کچھ چلتا ہے‘‘ کی اپروچ استعمال کرتے ہیں۔ ہمیں ہمارا ضمیر بھی روک نہیں پاتا۔ ہم اپنے اخلاق کو بھی بھول جاتے ہیں۔ اور جب ہم ایسا کرتے ہیں تو ہم اچھے شہری کی خوبی ’’ ایمانداری ‘‘ سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم ادائیگی فرض کی بات کرتے ہیں تو ہم میں سے ہر آدمی اپنے اپنے لیول کے مطابق ’’ کرپٹ‘‘ ہے۔ اگر ایک معمار حیلے بہانے بنا کر اپنا کام سے کنی کھسکاسکتا ہے تو وہ کرتا ہے، اگر ایک استاد کتاب بند کرکے ادائیگی فرض سے دور رہ سکتا ہے تو وہ کرتا ہے، اور اگرایک کمپنی کا مالک اپنے میٹیریل کی کوالٹی میں ہیر پھیر کرسکتاہے تو وہ کرتا ہے۔ نیز کہ ہر بندہ اپنے اپنے لیول کے مطابق ہر طریقے سے ادائیگی فرض سے منہ پھیرتا ہے۔ اور اگر ہم ایک دوسرے کی عزت کی بات کرتے ہیں تو ہماری کسی کو دی جانے والی عزت صرف اپنے مفاد تک ہی محدود ہوتی ہے۔ کیونکہ مفاد پرستوں کی عزت و چاپلوسی مفاد تک ہی ہوتی ہے۔ مفاد کے لئے ایک انسان کی ہر اچھی سے اچھی خوبی جس کا وہ حامل ہے یا نہیں ہے، گن گن کر سنا دیتے ہیں اور مفاد کے ختم ہوتے ہی اس کو اس کی اصل اوقات پر لے آتےہیں۔ دوسروں کےحق کی ادائیگی میں بھی ہم کسی تعریف کےحقدار نہیں، کیو نکہ ہر عہدیدار اپنے ما تحت کو ذاتی غلام کی حیثیت دیتا ہے اور اس کو ڈرا، دھمکا کے اس سے ادئیگی فرض کرواتا ہے۔ اور نظم و ضبط کی بات کی جا ئے تو شائد ہم دنیا کی واحد قوم ہیں جو ٹریفک سگنل پر بھی رک کر ادھر، ادھر نظریں گھماتے ہیں کہ کسی طریقہ سے سگنل آن ہونے سے پہلے بھاگا جا سکے۔

وطن کی عزت آبرو، ترقی اور وطن کے نام روشن کرنے میں ایک اچھے شہری کا اہم کردار شامل ہے۔ ہمیں اپنے وطن کی سا لمیت کے لئے ہمیشہ کوشاں رہنا چاہیے، ہمیں اپنے حقوق و فرائض سے آشنا ئی حاصل کرنی چاہیے۔ اگر ہم حقوق و فرائض و ذمہ داریوں سے آشنا ہی نہ ہوں گے تو ہم کیسے اپنے فرائض کی ادائیگی کیسے کر سکیں گے؟ ہم کیسے اپنے حقوق طلب کر سکیں گے؟ اور ہم کیسے اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقہ سے نبھا سکیں گے؟

ہمیں اپنی سوچ کا دھارہ بدلنا ہو گا۔ ہمیں ایک اچھے اور فرض شناس شہری کی طرح اپنے وطن سے محبت، نظم و ضبط پر قائم، قانون کی پاسداری اور ذاتی تعلقات کی بجائے میرٹ سسٹم پر انحصار کرنا ہو گا۔ ہمیں اپنے ملک کی خاطر اپنے فرائض کی ادائیگی میں کسی قسم کی کسر نہیں چھوڑنی چاہیے۔