1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. اسماعیل آفتاب/
  4. طلاق کا بڑھتا ہوا رجحان اور ایک "کیس سٹڈی"

طلاق کا بڑھتا ہوا رجحان اور ایک "کیس سٹڈی"

طلاق کا بڑھتا ہوا رجحان موجودہ دور کی ایک المناک صورت ہے، ہم مسلمان پوری دنیا میں مہذب قوم ہیں، ہماری تہذیب وتمدن بھی عمدہ ہیں، اور ہمارامذہب بھی نفیس ہے، لیکن جب سے ہم نے اپنے آپ میں لبرل ازم کا رنگ ملا لیا ہے، تب سے ہماری تہذیب گندھلی ہو کر رہ گئی ہے، اب شاید والدین کی وہ تمنائیں کم ہی پوری ہوتیں ہیں کہ جو اپنی بیٹی کی شادی، بیاہ پر یہ الفاظ دہراتے ہیں کہ"یہاں سے تیری ڈولی جائے، اور اگلے گھر سے تیرا جنازہ ہی نکلے"۔ اور اب تو وہ بات کہاں کہ جیسے پہلے پہل طلاق کو بہت برا سمجھا جاتا تھا، اگر کسی نے بوجہ عذر اس فعل کو کرنا بھی ہوتا تو طلاق کے کلمات اپنے گاوں، محلے یا بستی سے پرے کسی ویرانے میں جا کر الفاظ دہراتا، لیکن دور حاضر میں تو آئے روز"ایرینج میریجز"میں "لو افئیرز" اور "لو میریجز" میں کوئی اور"ایشوز" باعث طلاق بنے ہوتے ہیں، افسوس صد افسوس کہ دور حاٖضر میں اس فعل کا بڑھتا ہوا رجحان تشویشناک ہے۔
میں ذاتی طور پر سوشل میڈیا اور لبرل ازم کے حد سے تجاوز کا ناقد ہوں، سوشل میڈیا کا مثبت سے زیادہ منفی استعمال بھی معاشرے میں زور پکڑتی برائیوں کی جڑ کا باعث بننے میں اہم عنصر ہے، طلاق عورت کے لئے ایک ایسا دردناک سانحہ ہے، ایک ایسا سانحہ کہ جو عورت کی پوری عمر کو ایک ایسے کرب میں دھکیل دے، جس سے نہ وہ کبھی باہر آسکے اور نہ کبھی چھٹکارہ پا سکے، زندگی کے تمام تر مزے کو کرکرا کر کے رکھ دے، اگر کوئی اپنی ماضی کی یادوں کو بھی یاد کرنا چاہے تو اس لمحہ تک آکر اس کا اندر تک دہل جائے، یہ تو خوشیوں کو ملیامیٹ اور زندگی کو زہر کر رکھ دیتی ہے، روند ڈالتی ہے، زندگی کے اچھے لمحوں کو۔
لیکن المیہ یہ ہے کہ آئے روز کوئی نہ کوئی عاشقی معشوقی کے چکر میں شادی کوایک رکاوٹ گردان کر یا پھر پسند کی شادی نہ ہونے، اور، اپنے اندر بھری حرام کی چاہت کے لئے طلاق جیسے حربے کو استعمال کر کے اپنے غصہ کی پیاس بجھانے کا خیال کرتے ہیں، آپ تحقیق کر کے دیکھ لیجئے، "لو افئیرز"جہاں کئی طلاقوں کا سبب بنتے ہیں، وہی "لو میریجز" میں طلاق کا رجحان بنسبت زیادہ ہے، باعث طلاق کے اہم عناصر میں، سمجھوتہ کا نہ ہونا، اعتماد، دھوکہ دہی جیسے عناصرشامل ہیں، مجھے طلاق پر کی گئی تحقیق میں رومانیہ کے ایک گاوں میں اپنائی گئی حکمت عملی کا عمل ہوا، جس کو میں بطور"کیس سٹڈی" آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں، آپ ملاحظہ کیجئیے۔
بیرٹان، رومانیہ کا ایک چھوٹا سا گاوں ہے، اس گاوں کی مقامی چرچ میں ایک کمرہ "مفاہمت طلاق" کے نام سے موسوم ہے، یعنی جہاں طلاق کے حامی جوڑے میں صلاح یا سمجھوتا کروایا جاتا ہے، لیکن یہ کمرہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے الگ ہے، اوراس چرچ کے فادر کی حکمت عملی انوکھی ہے، جو بھی جوڑا علیحدہ ہونے کے لئے دعویٰ دائر کرتا ہے، اس جوڑے کو بطور سزا، مفاہمفی کمرہ میں دوہفتوں کے لئے بند کر دیا جاتاہے، ضروریات اشیاء میں ایک چھوٹا سا بیڈ، ایک کرسی، ایک میز، اور ایک کھانے کے لئے پلیٹ مہیا کی جاتی ہے، اور دوہفتوں کا وقت گزر جانے کے بعد اس جوڑے سے ان کی رضا مندی پوچھی جاتی ہے، کہ اگر وہ علیحدہ ہونا چاہیں تو ٹھیک، ورنہ مفاہمت کر لی جاتی ہے، 300 سال میں صرف ایک کیس ایسا ہے، جس میں طلاق اپنے انجام کو پہنچی ہو، اس کیس سٹڈی سے ہم سیکھ سکتے ہیں، کہ جب ایک جوڑہ علیحدہ ہونے کی کوشش کرتا ہے تو وہ سب سے پہلے اپنی بول چال اور رہن سہن علیحدہ کرتا ہے، لیکن جب ان دونوں کو ایک ایسا ماحول مہیا کیاجائے، جس میں وہ دونوں کا ایک دوسرے پر انحصار کرنا لازم ہو تو سمجھوتے کی راہیں ہموار کر کے مفاہمت کی جا سکتی ہے، اس کیس سٹڈی سے ہمیں بھی (مقامی طور پر) یا پھر ہماری حکومت کو رومانیہ کی اس حکمت عملی سے "انسپائر" ہو کر اس حکمت عملی پر عمل کرنا چاہیے، تا کہ طلاق کے بڑھتے ہوئے رجحان پرکسی حد تک قابو پایا جاسکے۔