1. ہوم/
  2. نظم/
  3. شاہد کمال/
  4. آنکھیں

آنکھیں

حسین چہرہ دمکتی آنکھیں

حیا میں ڈوبی لجاتی آنکھیں

فسانہ دل کا سنا رہی ہیں

سیاہ زلفیں چمکتی آنکھیں

گھنیری زلفوں کے پیچ و خم میں

الجھ ، الجھ کر سلجھتی آنکھیں

گلاب چہرے کی پنکھڑی پر

پھسلتی نظریں بہکتی آنکھیں

تری جبیں کی ہر اک شکن سی

ہر ایک لمحہ بدلتی آنکھیں

سرشک قامت ہے گلرخوں میں

گلاب جیسی مہکتی آنکھیں

کمانِ ابرو کے جام جم سے

شراب جیسی چھلکتی آنکھیں

لہو کی پازیب کی کھنک پر

خرام کرتی چھمکتی آنکھیں

تمہارے ہاتھوں کی چوڑیوں سی

کھنن ،کھنن، کھن ، کھنکتی آنکھیں

تمہاری پلکوں کے اَبر نم سے

ٹپکتی شبنم برستی آنکھیں

ہمارے دل میں اُتر رہی ہیں

سناں کی صورت کھٹکتی آنکھیں

رُلا ، رُلا کر ہنسا رہی ہیں

ہنسا ، ہنسا کے رولاتی آنکھیں

فسانہ دل کا سنا رہی ہیں

تمہاری یہ گنگناتی آنکھیں